سلامتی

سندھ پولیس اور یونیورسٹیاں درسگاہوں کے اندر انسدادِ انتہاپسندی کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں

آمنہ ناصر جمال

کراچی میں رینجرز ستمبر میں موٹرسائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو چیک کر رہے ہیں۔ ]آمنہ ناصر جمال[

کراچی میں رینجرز ستمبر میں موٹرسائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو چیک کر رہے ہیں۔ ]آمنہ ناصر جمال[

کراچی -- سندھ پولیس کا انسدادِ دہشت گردی کا شعبہ (سی ٹی ڈی) اور مختلف یونیورسٹیوں کی انتظامیات کیمپس کے اندر انتہاپسندی کا خاتمہ کرنے کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں۔

اس وقت جاری بحث و مباحثہ اور ملاقاتوں کا آغاز، اس وقت شروع ہوا جب نسبتا نامعلوم عسکریت پسند گروہ انصار الشرعیہ پاکستان (اے ایس پی) نے متحدہ قومی موومنٹ کے ایک راہنما کو ستمبر میں کراچی میں ہلاک کرنے کی کوشش کی۔

خیال ہے کہ اے ایس پی تقریبا ایک درجن انتہائی تعلیم یافتہ ارکان سے بنا ہے جو کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروہ النصرہ فرنٹ، جس کی بنیاد شام میں ہے، کی چھتری تلے کام کر رہا ہے۔

سی ٹی ڈی اور گیارہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے درمیان پہلی باضابطہ ملاقات ستمبر میں ہوئی۔

اس وقت سے، تعلیمی اداروں اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں دونوں میں حکام نے معلومات کا تبادلہ شروع کیا ہے۔

بڑھتا ہوا خطرہ

سی ٹی ڈی کے سینئر سپریڈنڈنٹ آف پولیس راجہ عمر خطاب نے دسمبر میں پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "انتہاپسندوں نے دیہی اور شہری علاقوں، مدرسوں اور یہاں تک کہ یونیورسٹیوں سے اور اس کے ساتھ ہی غریب اور امیر دونوں طرح کا پس منظر رکھنے والے نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے نوجوان جو بنیاد پرست تنظیموں کے پروپیگنڈا کا شکار ہو جاتے ہیں، اپنے کاموں کے طویل المعیاد نتائج کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں۔

خطاب نے کہا کہ "القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جنداللہ اور لشکرِ جھنگوی سے اے ایس پی تک-- ہائی پروفائل کے ارکان انتہائی تعلیم یافتہ ہیں۔ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ، مجرمان ٹیکنالوجی میں بھی مہارت رکھتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "فیکلٹی کے ارکان کو حساس بنانا چاہیے تاکہ وہ طلباء سے زیادہ باقاعدگی سے بات چیت کریں اور اپنے سے کسی بھی عدم اطمینان کو فوری طور پر دور کریں۔ اور ہمیں ایک ایسا طریقہ کار بنانا چاہیے جس سے طلباء کی نگرانی اور مشاورت ہو سکے"۔

تعلیمی اداروں میں بنیاد پرستی بڑھ رہی ہے۔ یہ بات سندھ سی ٹی ڈی کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس ثناء اللہ عباسی نے 19 دسمبر کو پاکستان فارورڈ کو بتائی۔

انہوں نے کہا کہ "تعلیمی اداروں کو اس مسئلے کی سنگینی کے بارے میں حساس بنانے کی ضرورت ہے۔ عسکریت پسندوں کی اگلی نسل کے پاسمدرسوں کا پس منظر ہونے کی بجائے یونیورسٹی کی تعلیم ہونے کا زیادہ امکان ہے"۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے "حکام تعلیمی اداروں میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں تفتیش کی بنیاد پر حاصل کردہ اپنی معلومات کو سانجھا کریں گے اور اس منڈلاتے ہوئے خطرے کو روکنے کے لیے یونیورسٹی کے حکام سے رائے لیں گے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہر یونیورسٹی میں بورڈ میں ایک خفیہ مرکزی شخص ہو گا جو کہ کیمپس میں ہونے والی مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع دے گا"۔ افسران "طلباء کو بنیاد پرست افراد یا تنظیموں کے ساتھ ملوث ہونے کے نتائج کے بارے میں معلومات دیں گے"۔

یونیورسٹیاںقانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں

پاکستان کی یونیورسٹیاں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں اور طلباء کی حفاظت کے لیے اپنے طور پر بھی اقدامات کر رہی ہیں۔

این ای ڈی یونیوسٹی آف انجینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے رجسٹرار غضنفر حسین کے مطابق، داخلہ ملنے سے پہلے طلباء کو پولیس کی طرف سے کلئیر کیا جانا ضروری ہو گا اور پولیس کسی بھی ایسے طالبِ علم کے خلاف مقدمہ دائر کر سکتی ہے جس جعلی کاغذات جمع کروانے کا مجرم پایا جائے گا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم نے طلباء سے بھی کہا ہے کہ اگر وہ کیمپس میں کوئی مشکوک سرگرمی دیکھیں تو اس کی اطلاع دیں۔ اس عمل میں ہر کسی کو شامل ہونے کی ضرورت ہے"۔

فیڈرل اردو یونیوسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم چوکس ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل حمایت کرتے ہیں"۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی ماہر ڈاکٹر محمد حفیظ کے مطابق، نوجوانوں کو ٹھوس تعلیم، اچھی پرورش اور ذمہ دار ذرائع ابلاغ کے ساتھ بنیاد پرستی اور انتہاپرستی سے محفوظ رکھا جانا چاہیے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہر جنگ آدمی کے ذہن میں لڑی جاتی ہے۔ اگر ذہنوں کی درست آبیاری نہ ہو تو وہ تباہ کن ہو جاتے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500