نیویارک -- طالبان سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے ہاتھوں میں پانچ برس تک یرغمال رہنے والی امریکی خاتون کا کہنا ہے قید کے دوران ان پر تشدد اور جنسی حملہ کیا گیا اور یہ کہ ان کے چھوٹے سے بیٹے سے مار پیٹ کی گئی تھی۔
کیٹلان کولمین اور ان کے کینڈین شوہر، جوشوا بوئل، کو سنہ 2012 میں افغانستان کے ایک دور افتادہ علاقے کا سفر -- جس کی وجوہات واضح نہیں ہیں -- کرتے ہوئے حقانی نیٹ ورک کی جانب سے اغواء کر لیا گیا تھا۔
حقانی نیٹ ورک کی قیادت سراج الدین حقانی کے ہاتھ میں ہے، جو کہ افغان طالبان کا نائب سربراہ بھی ہے۔
قید کے دوران 31 سالہ کولمین کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے۔
پچھلے ماہ اس خاندان کے کینیڈا واپس لوٹنے کے بعد، 34 سالہ بوئل نے اپنے اغواء کاروں پر "جبری اسقاطِ حمل" کے ذریعے اپنی نومولود بچی کو قتل کرنے اور اس کی بیوی کی عصمت دری کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
سوموار (20 نومبر) کو نشر ہونے والے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کولمین نے اے بی سی نیوز کو بتایا، "وہ سیل میں آئے، اور وہ میرے شوہر کو گھسیٹتے ہوئے جبراً باہر لے گئے، اور ان میں سے ایک محافظ نے مجھے زمین پر گرا دیا، مارا پیٹا اور چلایا 'میں تمہیں مار ڈالوں گا، میں تمہیں مار ڈالوں گا'۔
"اور یہی وہ وقت تھا جب حملہ ہوا۔ وہ دو آدمی تھے۔ اور پھر ایک تیسرا آدمی دروازے پر آ گیا۔ اور اس کے بعد ان جانوروں نے مجھے میرے کپڑے بھی واپس نہیں دیئے۔"
کولمین نے کہا کہ "یہ مستقل خوف میں رہنے والے ایک بچے کے لیے ناقابلِ برداشت صورتحال تھی"۔
انہوں نے کہا کہ محافظ "بہت جارحانہ ہو جاتے، یہاں تک کہ بعض اوقات بچوں کے ساتھ بھی." انہوں نے مزید کہا کہ محافظوں نے ان کے بیٹے جو کہ اب چار سال کا ہے پر ایک چھڑی سے حملہ کیا اور انہیں اور ان کے شوہر کو بھی مارا۔
انہوں نے اے بی سی نیوز کو بتایا، "مجھے مارا جاتا یا دھکا دیا جاتا یا زمین پر پھینک دیا جاتا۔"
بوئل کے مطابق، اپنے بچوں کو بچانے کے لیے مداخلت کرتے ہوئے کولمین کے جبڑے کی ہڈی اور تین انگلیاں ٹوٹ گئیں۔
جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ میں قسم کھا سکتا ہوں کہ آپ نے اسقدر جھوٹ بولے ہیں کہ اس کی کوئی حد نہیں۔
جوابتبصرے 1