ٹیکنالوجی

پاکستان اسمگل شدہ اور جعلی موبائل فونز کو بلاک کرے گا

عدیل سید

ماڈل کسٹمز کلیکٹریٹ کے حکام، 24 فروری کو پشاور انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر پکڑے جانے والے موبائل فونز کا جائزہ لے رہے ہیں اور انہیں رجسٹر کر رہے ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اسمگل شدہ اور غیر رجسٹر شدہ موبائل فونز کے استعمال کو روکنے کو لیے ایک نظام قائم کیا ہے۔ ]ماڈل کسٹمز کلیکٹریٹ پشاور[

ماڈل کسٹمز کلیکٹریٹ کے حکام، 24 فروری کو پشاور انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر پکڑے جانے والے موبائل فونز کا جائزہ لے رہے ہیں اور انہیں رجسٹر کر رہے ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اسمگل شدہ اور غیر رجسٹر شدہ موبائل فونز کے استعمال کو روکنے کو لیے ایک نظام قائم کیا ہے۔ ]ماڈل کسٹمز کلیکٹریٹ پشاور[

پشاور -- پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) جو کہ ملک کا ٹیلی کام واچ ڈاگ ہے، غیر قانونی طور پر برآمد کردہ اور جعلی موبائل فونز کو بلاک کرنے کے لیے ایک نیا نظام قائم کر رہی ہے۔

ایک نیا ملک گیر نظام جو کہ ڈیوائس آڈنٹیفکیشن، رجسٹریشن اینڈ بلاکنگ سسٹم (ڈی آئی آر بی ایس) کہلاتا ہے، ایک سینٹرلائزڈ ایکویپمنٹ آڈنٹٹی رجسڑ کے طور پر کام کرے گا جو کہ بلیک لسٹ کیے جانے والے موبائل فونز کے انٹرنیشنل موبائل ایکویپمنٹ آڈنٹٹی (آئی ایم ای آئی) کا ایک ڈیٹا بیس ہے۔

جب ڈی آئی آر بی ایس کو نافذ کر دیا جائے گا تو اسمگل شدہ موبائل فونز جن کے جعلی یا چوری شدہ آئی ایم ای آئی نمبر ہوں گے، پاکستان کے موبائل نیٹ ورکس پر کام نہیں کر سکیں گے جس سے اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

پی ٹی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ناصر علی خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ڈی آئی آر بی ایس کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اسے تمام متعلقین سے مشاورت کے ذریعے منظور کر لیا گیا ہے اور اس کے باضابطہ آغاز کی سرسری ڈیڈ لائن دسمبر میں ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "اس نظام کو ملک میں جعلی اور غیر قانونی طور پر درآمد کردہ موبائل فونز کو شناخت کرنے میں مدد کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جس سے ٹیکس کی ادائیگی سے بچا جاتا ہے اور مجرموں، دھوکہ بازوں اور دہشت گردوں کی طرف سے ان کے غلط استعمال کے باعث سیکورٹی کے معاملات گھمبیر ہو جاتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ ان ضوابط کے تحت، غیر رجسٹر شدہ موبائل فونز سیلولر کمپنیوں کے سسٹم سے نہیں جڑ سکیں گے۔ یہ نظام چوری شدہ فونز کو بلاک کرنے میں بھی مدد فراہم کرے گا اگر ان کے آئی ایم ای آئی نمبر کو رجسٹر کیا گیا ہو گا۔

لاکھوں غیر قانونی فون

پی ٹی اے نے ڈی آئی آر بی ایس کو حکم دیا ہے کہ وہ اسمگل شدہ اور آئی ایم ای آئی نہ رکھنے والے نمبروں کو انٹیلیجنس ایجنسیوں اور وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے درخواست کی بنیاد پر بلاک کر دیں۔ یہ خبر فلیئر نے دی جو کہ ٹیلی کام اور آئی ٹی کے کاروبار کا پاکستانی نیوز میگزین ہے۔

فلیئر نے اپنے اگست کے شمارے میں خبر دی تھی کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں سالانہ دس لاکھ فون اسمگل کیے جاتے ہیں جس سے خزانے کو محصولات نہ ملنے کی صورت میں 15 بلین روپوں (150 ملین ڈالر) سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔

غیر سرکاری اعداد و شمار نے اس سے زیادہ نقصان کا تخمینہ پانچ سے چھہ ملین اسمگل شدہ فونز اور 75 بلین روپے (750 ملین ڈالر) سالانہ کے نقصان کی صورت میں لگایا ہے۔

پشاور کے کسٹم کلکٹر گل رحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ایسے نظام کو قائم کرنے کا یہ درست فیصلہ ہے کیونکہ کسٹمز کا شعبہ ہر روز مختلف ایئر پورٹس پر بہت سے اسمگل شدہ موبائل فونز قبضے میں لے رہا ہے"۔

مثال کے طور پر، 4 نومبر کو کراچی کسٹم کے حکام نے 64,000 اسمگل شدہ موبائل فونز پکڑے جن کی بازار میں قیمت کا تخمینہ تقریبا 350 ملین روپے (3.5 ملین ڈالر) لگایا گیا ہے۔

حکام نے کہا کہ ان فونز کو غلط طور پر ایل ای ڈی لائٹیں اور بلب بتایا گیا تھا۔ حکام نے بعد میں کراچی کے ایک گھر سے 80,000 موبائل فونز قبضے میں لیے۔

رحمان نے کہا کہ ایف بی آر ایسے موبائل فونز کی اسمگلنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرتی رہی ہے جن سے سیکورٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "جب ہم بلاک کرنے کا نظام لگا لیں گے تو ایسے آلات کی غیر قانونی درآمد قدرتی طور پر ختم ہو جائے گی"۔

رحمان نے کہا کہ "کسٹمز کا شعبہ پی ٹی اے اور دیگر متعلقہ شعبوں کے ساتھ، ڈی آئی آر بی ایس کے نفاذ کے لیے مکمل تعاون کرے گا تاکہ عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور ملک کے محصولات سے لاکھوں روپوں کی چوری کو روکا جا سکے"۔

سیکورٹی کا ایک بڑا مسئلہ

سینٹرل آرگنائزیشن آف ٹریڈرز آف موبائل اسیسریز خیبر پختونخواہ کے صدر نثار ایوان نے کہا کہ "یہ درست سمت میں اٹھایا جانے والا قدم ہے کیونکہ دہشت گردی کے لیے درآمد کردہ فونز کے مجرمانہ استعمال کے بارے میں بہت سی شکایات آئی تھیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ایسی کوئی بھی چیز جو سیکورٹی کے لیے خطرہ ہو اسے بلاک کر دینا چاہیے یا اس کا خاتمہ کر دینا چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ "اسمگل شدہ موبائل فونز سیکورٹی کے لیے سنگین خطرہ تھے کیونکہ ان کے مالکان کا پتہ لگانا مشکل تھا"۔

اعوان نے کہا کہ "ڈی آئی آر بی ایس کو لگائے جانے کے بعد، سیلولر کمپنیوں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ صرف ایسے موبائل فونز کو ہی سروس مہیا کریں جو آئی ایم ای آئی اور کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) نمبروں کے ذریعے سسٹم کے پاس رجسٹر ہوں گے۔ اس سے تخریبی سرگرمیوں کے لیے ان کے غلط استعمال کو روکنے میں مدد ملے گی"۔

اعوان نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پی ٹی اے اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادارا) کے کردار کو سراہا۔

انہوں نے کہا کہ "دونوں اداروں نے 103 ملین سم (سبسکرائبر آڈنٹٹی ماڈیول) کارڈوں کو بائیومیٹریکلی رجسٹر کرنے اور دو ملین غیر رجسٹرڈ شدہ کارڈوں کو بلاک کرنے سے ملک کی سیکورٹی فورسز کی مدد کی ہے۔

اعوان نے ڈی آئی آر بی ایس کو کامیاب بنانے کے لیے تجارتی برادری کی طرف سے مکمل تعاون کا وعدہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ "عوام کی حفاظت اور ہم وطنوں کی سیکورٹی کے لیے کی جانے والی کسی بھی چیز کو ہماری مکمل مدد حاصل ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اگر کوئی بیرونِ ملک سے پاکستان کو موبائل فون سمگل کر رہا ہو تو آپ کو کہاں اطلاع کرنی چاہیئے

جواب