معیشت

سوات میں شہد اور ریشم کی صنعتوں کو حکومتی مد د ملی ہے

محمد شکیل

شہد کی مکھیاں پالنے والا ایک پاکستانی، حفاظتی لباس پہنے ہوئے 23 اکتوبر کو پشاور میں مکھیوں کے ایک فارم میں شہد کے چھتے کا جائزہ لے رہا ہے۔ تقریبا 300,000 پاکستانی شہد کی مکھیوں کی کالونیاں سالانہ 7,500 ٹن شہد بناتی ہیں۔ ]عبدل مجید/ اے ایف پی[

شہد کی مکھیاں پالنے والا ایک پاکستانی، حفاظتی لباس پہنے ہوئے 23 اکتوبر کو پشاور میں مکھیوں کے ایک فارم میں شہد کے چھتے کا جائزہ لے رہا ہے۔ تقریبا 300,000 پاکستانی شہد کی مکھیوں کی کالونیاں سالانہ 7,500 ٹن شہد بناتی ہیں۔ ]عبدل مجید/ اے ایف پی[

پشاور -- پاکستانی حکام خیبر پختونخواہ (کے پی) کی مالاکنڈ ڈویژن میں شہد اور ریشم کی صنعت کو بحال کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ڈویژن اور صوبہ دونوں ہی مجموعی طور پر کے پی میں طالبان کے عروج 2007 سے 2009 تک کے دوران تباہ ہو گئے تھے۔

پاکستان کے صنعتوں اور پیداوار کے وزیر غلام مرتضی خان جتوئی نے 26 اکتوبر کو سوات ڈسٹرکٹ میں دو کلسٹر ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کا افتتاح کیا۔ یہ منصوبہ جسے ملک کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت قائم کیا گیا ہے پر 100 ملین روپے (1 ملین ڈالر) کا خرچہ آئے گا۔

افتتاح کے موقع پر جتوئی نے کہا کہ "یہ سوات میں منصوبہ روایتی کپڑے کی صنعت اور گھریلو پیداوار کو فروغ دے گا"۔

اس منصوبے میں ایسی سہولیات شامل ہیں جن کا مقصد ریشم اور شہد کی مکھیوں کے روایتی شعبوں کو ایسی نئی مصنوعات سے جدید بنانا ہے جو دورِ جدید کی منڈیوں کے رجحانات کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہوں اور تیار مصنوعات کی کھپت کے لیے نئے مواقع کو تلاش کرنا ہے۔

کارکن ہنی پراسیسنگ اینڈ پیکجنگ کامن فیسیلٹی سینٹر میں 26 اکتوبر کو شہد پیک کر رہے ہیں۔ یہ مرکز پاکستان کی سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) نے قائم کیا ہے۔ ]سمیڈا[

کارکن ہنی پراسیسنگ اینڈ پیکجنگ کامن فیسیلٹی سینٹر میں 26 اکتوبر کو شہد پیک کر رہے ہیں۔ یہ مرکز پاکستان کی سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) نے قائم کیا ہے۔ ]سمیڈا[

لاہور میں 3 اپریل 2012 کو پاکستانی کارکن کپڑے پر پرنٹ بنا رہے ہیں۔ حکام سلک کلسٹر کے لیے رنگنے، دھونے اور استری کرنے کے عمومی سہولتی مراکز قائم کر کے خیبر پختونخواہ کی مالاکنڈ ڈویژن میں ریشم کی صنعت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ]عارف علی/ اے ایف پی[

لاہور میں 3 اپریل 2012 کو پاکستانی کارکن کپڑے پر پرنٹ بنا رہے ہیں۔ حکام سلک کلسٹر کے لیے رنگنے، دھونے اور استری کرنے کے عمومی سہولتی مراکز قائم کر کے خیبر پختونخواہ کی مالاکنڈ ڈویژن میں ریشم کی صنعت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ]عارف علی/ اے ایف پی[

ترقیاتی منصوبے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز اتھارٹی (سمیڈا) کی طرف سے بنائے گئے ہیں جو کہ مشاورت اور اداراہ جاتی امداد کے ذریعہ سہولیات کی نگرانی کی ذمہ دار بھی ہے۔

شہد کی پروسیسنگ

مالاکنڈ کو ایسا مکمل ماحول عطا کیا گیا ہے جو اعلی معیار کے شہد کی پیداوار کے لیے درکار ہیں مگر علاقے میں پروسیسنگ کی سہولیات کی کمی ہے۔

سمیڈا کے ہنی پراسیسنگ اینڈ پیکجنگ کامن فیسیلٹی سینٹر کے پراجیکٹ منیجر اشفاق آفریدی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ گزشتہ سالوں میں امن و امان کی خراب صورتِ حال نے شہد کی پیداوار کو نقصان پہنچایا ہے۔

برآمدات پر نظر رکھتے ہوئے، مرکز کو ایس پی ڈی پی کے تحت 38.2 ملین روپے (363,000 ڈالر) کے خرچے سے قائم کیا گیا ہے جس میں 18.6 ملین روپے (177,000 ڈالر) بنانے کا خرچہ اور تین سال تک چلانے کے لیے 19.6 ملین روپے (186,000 ڈالر) کا خرچہ شامل ہے۔

آفریدی نے کہا کہ اس سہولت سے شہد کی مکھیاں پالنے والوں کے منافع میں ایک ہی جگہ پر نکالنے، صاف کرنے، بوتلوں میں بند کرنے اور پیکنگ کرنے سے مالیت میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے بڑھوتی ہو گی۔

معیار کو بہتر بنانے اور مرکز میں تمام مصنوعات کے معیار کو ایک سطح کا بنانے سے، کسان بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے زیادہ بہتر مقام حاصل کر لیں گے۔

مرکز آٹھ گھنٹوں میں تقریبا 2 ٹن شہد پراسیس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

آفریدی نے کہا کہ علاقے میں شہد پیدا کرنے والی مکھیوں کی 500 سے زیادہ کالونیاں ہیں جن سے سالانہ تقریبا 900 ٹن شہد پیدا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مگر شہد کو پراسیسنگ کی دور دراز کی سہولیات تک لے جانے کے پرانے طریقے کی وجہ سے پیداوار کنندہ کے لیے منافع کی شرح بہت کم رہ جاتی ہے۔

آفریدی کے مطابق، نئے مرکز میں مقامی شہد کی پراسیسنگ، نمی کو ختم کرنے اور سٹیبیلیٹی کو بہتر بنانے سے کسانوں کے لیے منافع کی شرح میں تقریبا 40 فیصد اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ "توقع ہے کہ مرکز کسانوں کی حوصلہ افزائی بھی کرے گا کہ وہ معیار کو بہتر بنانے کے لیے نئے طریقہ کار کو اپنائیں"۔

ریشم کو رنگنا، دھونا اور استری کرنا

مالاکنڈ میں ریشم کے پیداوار کنندگان کو بھی مدد مل رہی ہے۔

سمیڈا کے سلک کلسٹر کے لیے ڈائنگ، واشنگ اینڈ پریس کامن فیسلٹی سینٹر کے پراجیکٹ منیجر اور ٹیکسٹائل انجینئر محمد اسرار وزیر نے کہا کہ "ہماری کوششوں کا مقصد سوات میں، جہاں شہریوں نے سرکشی کے دوران برے حالات اور معاشی نقصانات کا سامنا کیا ہے، کلسٹر ڈویلپمنٹ کے ذریعے کاروباروں اور کارجوئی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ریشم کے مقامی پیدوار کنندگان کے کلسٹروں کی مدد تاکہ وہ مستحکم روزگار حاصل کر سکیں اور مالاکنڈ میں معاشی سرگرمیوں کو بڑھانا، ہمارے مقاصد میں سے ایک ہے"۔

اسرار نے کہا کہ رنگنے، دھونے، استری کرنے اور سائز کی ایک مشترکہ سہولت کے ہونے سے معیار بہتر ہو گا، ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے اور علاقے کی معیشت کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے پیشن گوئی کی کہ وہ قومی سطح پر نئی منڈیوں کے مواقع تلاش کرنے سے سماجی- اقتصادی حالات کو بہتر بنانے میں برادری کی مدد کریں گے اور ان کی مصنوعات کے مارکیٹ شیئر میں اضافہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ سلک سینٹر میں چوبیس گھنٹوں میں 3,000 میٹر کپڑا پراسیس کرنے کی صلاحیت ہے جو کہ سوات میں ریشم کی موجودہ صنعت کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔

اسرار نے کہا کہ "شورش اور عسکری آپریشن کے باعث بند ہو جانے والے 350 سلک یونٹوں میں سے صرف 75 نے ہی دوبارہ کام کرنا شروع کیا ہے اور ہم ان یونٹوں میں بنائے جانے والے ریشم کے کپڑے کو پراسیس کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ یہ مرکز 57.5 ملین روپے (547,000 ڈالر) کی لاگت سے قائم کیا گیا ہے جس میں 25.8 ملین روپے (245,000 ڈالر) لگانے کا خرچہ اور تین سالوں کے لیے چلانے کے لیے 31.8 ملین روپے (302,000 ڈالر) کا خرچہ شامل ہے۔

مقامی کسانوں کو فائدہ پہنچانا

مالاکنڈ ہنی بی کیپرز ایسوسی ایشن کے صدر شیر ملوک احمد نے طالبان کے جبر کے سالوں کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان فاروڈ کو بتایا کہ "غیر یقینی جس نے سوات میں تجارت اور معیشت کی سرگرمیوں کو انتہائی زیادہ نقصان پہنچایا ہے کے طویل عرصے کے بعد، مقامی کسان ان منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کے مشتاق ہیں"۔

اس دور میں، کسانوں کے لیے اپنے شہد کو پراسیسنگ کے لیے لے جانا بہت مشکل تھا اور زیادہ تر پیداوار پیکجنگ اور صفائی کے ایسے مراکز تک لے جاتے ہوئے ہی خراب ہو جاتی تھی جو مالاکنڈ کے علاقے سے باہر واقع تھے۔

خان کے مطابق، مالاکنڈ کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں، کالام اور شنگلہ میں عسکریت پسندی کے نتیجہ میں، 80 فیصد شہد کے فارم بند ہو گئے تھے جس سے ان کے مالکان مایوسی کی حالت کا شکار ہو گئے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500