گلگلت -- ملک کا 70 واں یومِ آزادی منانے کے لیے 3،000 کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے، سینکڑوں گاڑی سواروں نے منگل (31 اکتوبر) کے روز خیر و عافیت سے پاکستان موٹر ریلی مکمل کر لی ہے۔
ریلی، جس کا اہتمام پاکستانی فوج کی جانب سے کیا گیا تھا، میں پورے ملک سے 23 موٹر کلبوں کی جانب سے 300 سے زائد جیپیں، 500 موٹرسائیکلیں اور 150 نایاب کاریں شامل تھیں۔
گاڑی سواروں نے 21 اکتوبر کو چین کی سرحد کے قریب، درۂ خنجراب سے گاڑیاں چلانا شروع کیں اور گلگت، اسلام آباد، جنوبی وزیرستان، کوئٹہ اور کراچی سے گزرتے ہوئے اپنی حتمی منزل گوادر، صوبہ بلوچستان پہنچے۔ فوج نے ڈرائیوروں اور راستوں کو محفوظ بنایا۔
ایک بیان میں فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے کہا کہ پاکستان موٹر ریلی نے "امید اور امن کا پیغام دینے، مہماتی کھیلوں کو فروغ دینے، سیاحتی امکانات، ثقافتی ورثے اور کھیلوں کی صلاحیتوں کی نمائش کرنے، گاڑیوں کے کھیلوں کا کام کرنے والے بکھرے ہوئے اور ناکافی کلبوں کا حلقہ بنانے اور پاکستانی میں نایاب اشیاء کو بچانے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ملک کے طول و عرض کا سفر کیا۔"
بیان میں کہا گیا، "ریلی کے لیے منتخب کردہ راستے اور علاقے کم نمایاں، غیر معمولی کوششوں کے ساتھ تیار کردہ ہیں، اور پاکستان کے لیے خوشحالی کے بیجوں کا کام سرانجام دیتے ہیں۔"
پاکستان نے 14 اگست 1947 کو برطانوی راج سے آزادی حاصل کی تھی۔
امن کا ایک پیغام
بہت سے موٹر سواروں اور شہریوں نے ریلی کو پاکستان کے لیے ایک حقیقی امید قرار دیا۔ 1،000 سے زائد شرکاء جنہوں نے پاکستان کے خاردار پہاڑوں اور میدانوں میں سے سفر کیا، کے ساتھ ریلی نے نشاندہی کی کہ ملک کا زیادہ تر حصہ برسوں کے عدم تحفظ اور خوف کے بعد اب محفوظ ہے۔
گلگت-بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ حفیظ الرحمان، جنہوں نے 21 اکتوبر کو نکتۂ آغاز پر موٹر سواروں کو الوداع کیا، نے کہا، "ریلی کا کامیاب اختتام بین الاقوامی برادری کو پیغام [دیتا] ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ریلی "پورے پاکستان کے لیے امید اور خوشحالی کا ایک پیغام ہے، جو کہ دہشت کے ماحول [کے خلاف] فتح کے بعد خوشحالی کے راستے پر گامزن ہے۔"
ایک نایاب کار چلانے والی ریلی کی ایک خاتون شریک، مہ جبین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم یہاں پیار، امن اور ایک بہتر پاکستان اور ایک بہتر دنیا کے لیے امید دینے کے لیے آئے ہیں۔"
ثقافتی، اقتصادی مواقع
لاہور کے ایک کلاسیکی گلوکار، حامد علی خان وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات میں وزیرستان سے لے کر صوبہ بلوچستان کے شہر ژوب تک کے حصے کے دوران ریلی میں دیگر افراد کے ساتھ شامل ہوئے۔
خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ انہیں وزیرستان آتے ہوئے پریشانی ہوئی تھی لیکن "زندگی معمول پر ہے، اور ہر طرف امن ہے -- مجھے بہت فخر ہے اور میں بہت خوش ہوں کہ پاکستانی فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کی ہے۔"
انہوں نے کہا، "ایسی ریلیاں اور ایسے راستے جو غیر محفوظ ہوا کرتے تھے، آج پُرامن ہیں۔ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان اب مزید دہشت گردوں کی جنت نہیں ہے۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستانی دنیا کو فخر سے یہ بتاتے ہیں کہ اس ملک میں امن لوٹ آیا ہے، جس نے فوج اور عوامی حمایت کے ساتھ دہشت گردی کو شکت دی ہے۔
خان نے کہا، "یہ دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ پاکستان فن، ثقافت اور موسیقی کے لیے محفوظ جگہ ہے اور یہ کہ باقی سب قصۂ پارینہ ہو چکا ہے۔"
ریلی میں شریک ایک موٹرسائیکل سوار، سلیم مروت نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ریلی "پاکستان کے لیے ایک بہت بڑی امید ہو گی" اور "مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کو بھی راغب کرے گی۔"
ریلی کے ایک اور شریک، توقیر ضیاء نے ریلی میں شامل ہونے والے غیر ملکیوں کی موجودگی پر بات کی۔ "یہ ایک اچھی علامت ہے؛ یہ اس ملک میں مزید سرمایہ کاری اور سرمایہ کاروں کو لائے گی۔"
ضیاء نے کہا، "ان پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کے لیے مزید ملازمتیں اور روزگار دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہو گا، جو بیروزگار پاکستانی نوجوانوں کا استحصال کرتا رہا ہے۔"