تعلیم

پاکستانی یونیورسٹیاں کیمپس کے اندر انتہاپسندی سے جنگ کر رہی ہیں

جاوید محمود

اگست میں پشاور یونیورسٹی کو دکھایا گیا ہے۔ پاکستانی یونیورسٹیاں حفاظتی اقدامات کر رہی ہیں اور طلباء کی سرگرمیوں اور رویوں کی نگرانی کر رہی ہیں تاکہ کیمپس کے اندر انتہاپسندی کے خطرے پر کریک ڈاون کیا جا سکے۔ ]قاسم یوسف زئی[

اگست میں پشاور یونیورسٹی کو دکھایا گیا ہے۔ پاکستانی یونیورسٹیاں حفاظتی اقدامات کر رہی ہیں اور طلباء کی سرگرمیوں اور رویوں کی نگرانی کر رہی ہیں تاکہ کیمپس کے اندر انتہاپسندی کے خطرے پر کریک ڈاون کیا جا سکے۔ ]قاسم یوسف زئی[

اسلام آباد -- انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز (آئی ایس ایس آئی) کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں انتہاپسندی اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہے جتنی کہ وہ نظر آتی ہے۔

کراچی میں 2 ستمبر کومتحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے راہنما خواجہ اظہار الحسن کے قتل کی کوشش، نے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے کیونکہ حملہ آور انتہائی پڑھے لکھے نوجوانوں کا ایک گروہ تھا جن کا تعلق انصار الشرعیہ پاکستان (اے ایس پی) سے تھا جو کہ ایک درجن کے قریب ارکان پر مبنی ایک عسکری تنظیم ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ النصرہ فرنٹ جو کہ شام میں بنیاد رکھنے والا القاعدہ سے منسلک گروپ ہے، کی چھتری تلے کام کرتا ہے۔

اسد اللہ خان جو کہ ایک ریسرچ فیلو اور 2 اکتوبر کی رپورٹ جس کا عنوان "آن کیمپس ایکسٹریم ازم" ہے کے لکھاری ہیں نے کہا کہ اس واقعہ سے یہ تصور پیدا ہوا ہے کہ پاکستانی میں یونیورسٹیاں متشدد انتہاپسندی کی افزائش گاہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تاہم یہ تشریح کچھ زیادہ ہی سادہ ہے کیونکہ "کسی بھی معاشرے میں انتہاپسند عناصر، معاشرے کے تمام حصوں میں ان کے سماجی - اقتصادی مقام اور تعلیمی پس منظر سے قطع نظر، مشترک ہوتے ہیں"۔

ایک پاکستانی تفتیش کار، 2 ستمبر کو کراچی میں حزبِ مخالف کے سیاست دان پر ہونے والے حملے کی جگہ کا معائینہ کر رہا ہے۔ مسلح افراد نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے راہنما خواجہ اظہار الحسن پر بفر زون کے علاقے میں قاتلانہ حملے کی کوشش کے دوران ایک 10 سالہ بچے اور ایک گارڈ کو ہلاک کر دیا۔ ]آصف حسن/ اے ایف پی[

ایک پاکستانی تفتیش کار، 2 ستمبر کو کراچی میں حزبِ مخالف کے سیاست دان پر ہونے والے حملے کی جگہ کا معائینہ کر رہا ہے۔ مسلح افراد نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے راہنما خواجہ اظہار الحسن پر بفر زون کے علاقے میں قاتلانہ حملے کی کوشش کے دوران ایک 10 سالہ بچے اور ایک گارڈ کو ہلاک کر دیا۔ ]آصف حسن/ اے ایف پی[

رپورٹ نے کہا کہ اس کے باوجود، انتہائی پڑھے لکھے نوجوانوں کا عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہونا دو وجوہات کے باعث تشویش ناک ہے: یہ ہنرمند نوجوان پاکستان کا ضائع شدہ اثاثہ ہیں اور وہ دہشت گرد گروہوں کو مضبوط کر سکتے ہیں اور معاشرے کو غیر روایتی طریقے سے نقصان پہنچانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

نوجوانوں کو سیاست، مذہب کے بارے میں تعلیم دینا

خان نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی موجودگی پاکستان کے لیے "ایک بڑا چیلنج" ہے۔

انہوں نے کہا کہ "مذہبی سیاسی جماعتیں مذہب کی بنیاد پر اپنی شناخت کو تعمیر کرتی ہیں۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے، نوجوان افراد کو مذہب اور سیاسیت کی پیچیدگی کو سمجھنے کی ضرورت ہے"۔

انہوں نے کہا کہ ان مذہبی سیاسی جماعتوں کے مقصد کو سمجھا جانا ضروری ہے۔ "یہ مذہب کا معاملہ نہیں ہے، یہ صرف سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے نوجوان اور کمزور ذہنوں میں کیمپس کے اندر مذہبی عقائد کو داخل کرنے کا معاملہ ہے"۔

انہوں نے کہا کہ تحیق جو کہ اختراع اور علم حاصل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، انتہاپسندی کے انسداد میں ایک طاقت ور ہتھیار ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "یونیورسٹی میں کمزور نوجوانوں کے ذہنوں کو معیاری تحقیق کے لیے ماحول اور ضروری وسائل مہیا کرنے سے، تبدیل کیا جا سکتا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی خصوصیات کی بہت سے اعلی تعلیمی اداروں میں اس وقت کمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان جیسے مذہبی، سماجی اور ثقافتی طور پر متنوع ملک میں، اعلی تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں ۔۔۔ ایسا مرکزی میکانزم ہیں جو ملک کے تنزل پزیر سماجی بنیادی ڈھانچے کو بلند کر سکتا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں متشدد انتہاپسندی سے جنگ کرنے کے لیے "اختراعی اور غیر روایتی طریقہ کار" کی ضرورت ہے۔

طلباء کی نگرانی، انتہاپسندی کا انسداد

یونیورسٹی کے منتظمین کیمپسز میں انتہاپسندی کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (این یو ایس ٹی) میں اسکول آف سوشل سائنس اینڈ ہیومینٹیز کے ڈین اشفاق حسن خان نے کہا کہ "ڈسپلن اور نگرانی کی کمی کے باعث انتہاپسندی، عسکریت پسندی اور دیگر مسائل پاکستانی کی کچھ یونیورسٹیوں میں سرایت کر رہے ہیں"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ہاسٹلوں میں طلباء کی سخت نگرانی کے باعث، این یو ایس ٹی میں انتہاپسندی یا عسکریت پسندی کا کوئی ایک بھی واقعہ رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہاسٹلوں میں رہنے والی طالبات پر رات نو بجے کا کرفیو ہوتا ہے جب کہ طلباء پر رات ساڑھے دس بجے کا کرفیو ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں این یو ایس ٹی ہاسٹلوں میں باہر کے لوگوں کو رہنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

خان نے کہا کہ یونیورسٹی کا عملہ بھی "طلباء کی سرگرمیوں اور ان کے حلیے پر نظر رکھتا ہے" اور ایسے طلباء جو جدوجہد کا شکار نظر آتے ہیں، کے ساتھ فالو اپ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتہاپسندی، عسکریت پسندی اور منشیات کے مسائل کا سامنا کرنے والے اداروں کو اپنے طلباء کو محفوظ رکھنے کے لیے نگرانی سخت کرنی چاہیے اور بیرونی لوگوں کو کیمپس اور ہاسٹل سے دور رکھنا چاہیے۔

سیکورٹی کے حل

کراچی یونیورسٹی میں، انتظامیہ کیمپس میں تعینات سیکورٹی فورسز سے باقاعدگی سے کورڈی نیٹ کرتی ہے۔

یونیورسٹی کے ایک ترجمان فاروق علی خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کراچی یونیورسٹی میں کئی سالوں سے مستقل بنیادوں پر رینجرز کو تعینات کیا گیا ہے اور اس کا مقصد سیکورٹی کو قائم رکھنا اور دیگر چیلنجوں سے نپٹنا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ دوسرے اسکولوں کی طرح، کراچی یونیورسٹی اپنے طلباء کی سرگرمیوں اور رویوں کی نگرانی کرتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ "سماج مخالف سرگرمیوں" میں ملوث نہ ہو جائیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ طلباء ہر روز یونیورسٹی میں صرف تین سے پانچ گھنٹے ہی گزارتے ہیں، کہا کہ "یہ طلباء کے خاندان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں"۔

کراچی کے ڈیلی پاکستان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر مبشر میر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "حکومت اور یونیورسٹیوں کو طلباء کی حفاظت اور یونیورسٹیوں کو انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کے خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے سیکورٹی کا ایک فول پروف نظام بنانا چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ طویل مدتی حل کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہو گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500