حقوقِ انسانی

امن کی حامی پشتون کے لیے حقوق کا اعلیٰ ایوارڈ

از دانش یوسفزئی

انسانی حقوق کی کارکن گلالئی اسماعیل 20 ستمبر 2017 کو نیویارک شہر میں لنکن سینٹر پر جاز میں گول کیپرز 2017 پر خطاب کرتے ہوئے۔ [جیمی مکیتھی/ گیٹی امیجز نارتھ امریکہ/ اے ایف پی]

انسانی حقوق کی کارکن گلالئی اسماعیل 20 ستمبر 2017 کو نیویارک شہر میں لنکن سینٹر پر جاز میں گول کیپرز 2017 پر خطاب کرتے ہوئے۔ [جیمی مکیتھی/ گیٹی امیجز نارتھ امریکہ/ اے ایف پی]

پشاور -- خیبر پختونخوا (کے پی) سے تعلق رکھنے والی ایک امن کی حامی، گلالئی اسماعیل، کو پاکستان میں انتہاپسندی اور تشدد کا مقابلہ کرنے کے لیے اعلیٰ درجے کے اینا پولیتکووشایا ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

اینا پولیتکووشایا، ایک روسی صحافی تھیں، جنہیں چیچنیا میں جنگ کی رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں 7 اکتوبر 2006 میں ماسکو میں قتل کر دیا گیا تھا۔ لندن کی مقامی تنظیم ریچ آل وومن ان وار (راء ان وار) نے 2007 سے آغاز کرتے ہوئے ان کی یاد میں ایک ایوارڈ قائم کیا تھا جس سے ان خواتین کو نوازا جاتا ہے جو شورش زدہ علاقوں میں انسانی حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔

گلالئی اسماعیل اور ہندوستانی صحافی گوری لنکیش نے 5 اکتوبر کو اینا پولیتکووشایا ایوارڈ 2017 مشترکہ طور پر وصول کیا تھا۔

دونوں کو اپنے اپنے ممالک میں انتہاپسندی کے خلاف بولنے میں ان کی دلیری پر سراہا گیا تھا۔ گلالئی نے شمال مغربی پاکستان میں انتہاپسندانہ مذہبی اقدار کی مخالفت کی تھی، جبکہ گوری نے ہندوستان میں دائیں بازو کی ہندو انتہاپسندی اور ذات پات پر مبنی تفریق کے خلاف بات کی تھی۔ گوری کو 5 ستمبر 2017 میں جنوبی ہندوستان کے شہر بنگلور میں نامعلوم مسلح افراد نے ہلاک کر دیا تھا۔

10 ستمبر کو پشاور میں گلالئی اسماعیل ایک آگاہی نشست کے دوران اسکولوں کی لڑکیوں کے ساتھ۔ [تصویر بشکریہ گلالئی اسماعیل]

10 ستمبر کو پشاور میں گلالئی اسماعیل ایک آگاہی نشست کے دوران اسکولوں کی لڑکیوں کے ساتھ۔ [تصویر بشکریہ گلالئی اسماعیل]

10 ستمبر کو پشاور میں گلالئی اسماعیل ایک نشست کے دوران تعلیم کی اہمیت کے متعلق لکھتے ہوئے۔ [تصویر بشکریہ گلالئی اسماعیل]

10 ستمبر کو پشاور میں گلالئی اسماعیل ایک نشست کے دوران تعلیم کی اہمیت کے متعلق لکھتے ہوئے۔ [تصویر بشکریہ گلالئی اسماعیل]

باشعور لڑکیاں

سنہ 2002 میں، 16 سال کی عمر میں، گلالئی اور ان کی بہن صبا نے باشعور لڑکیاں نامی ایک تنظیم قائم کی تھی، جو ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو کے پی اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں خواتین پر تشدد اور انہیں ہراساں کرنے کی ثقافت کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔

گلالئی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ بالکل آغاز سے ہی، [باشعور لڑکیاں] تنظیم نے حقوقِ نسواں کے لیے کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا، "ہماری تنظیم خواتین کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہے اور خواتین میں اپنے حقوق کے لیے آگاہی پیدا کرتی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ حالیہ ایوارڈ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔

باشعور لڑکیاں تنظیم میں ایک پروگرام رابطہ کار، سلمیٰ خان نے کہا کہ گلالئی کو ان کے کام کے لیے اکثر دھمکیاں ملتی رہی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ بہت سی سوشل میڈیا مہمات میں گلالئی کو غیر ملکی ایجنٹ اور مغرب کی کٹھ پتلی کہا گیا ہے۔

سلمیٰ نے کہا، "یہاں تک کہ ان پر ملحد ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا اور انہیں تنگ نظر مذہبی گروہوں کی جانب سے بارہا دھمکیاں دی گئیں۔ تاہم، انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور اپنا کام اور بھی زیادہ جذبے سے جاری رکھا۔"

سلمیٰ خان کے مطابق، اگرچہ باشعور لڑکیاں تنظیم کی بنیادی توجہ خواتین کے مسائل پر مرکوز ہے، گروپ نے خطے میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور کے پی اور فاٹا کے نوجوانوں کو تعلیم دینے کے لیے بہت سی تربیت گاہوں اور ورکشاپوں کا بھی آغاز کیا ہے۔

گلالئی نے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو خطے میں امن کے کارکن بننے کی ترغیب دینے کے لیے سنہ 2009 میں یوتھ پیس نیٹ ورک قائم کیا تھا۔

باشعور لڑکیاں کی ایک پراجیکٹ اسسٹنٹ، اقصیٰ خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "گلالئی کا خیال ہے کہ نوجوان پاکستان میں امن کے فروغ میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔"

نیٹ ورک کا قیام اس وقت عمل میں آیا تھا جب دہشت گردی کے پی اور فاٹا میں اپنے عروج پر تھی۔ گلالئی نے کہا کہ انتہاپسند نوجوانوں کو باآسانی اپنا شکار بنا سکتے تھے۔

انہوں نے کہا، "اس خطرے سے بچنے کے لیے، [باشعور لڑکیاں] نے نوجوانوں کو یوتھ پیس نیٹ ورک کے پلیٹ فارم کے تحت جمع کرنا شروع کیا اور انتہاپسندانہ نظریات کے خلاف ایک جوابی بیانیہ شروع کیا۔ ہم نے 500 سے زائد لڑکوں اور لڑکیوں کو تربیت دی ہے جو خطے میں امن کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔"

سوشل میڈیا کا استعمال

یونیورسٹی آف پشاور میں بین الاقوامی تعلقات کے ایک طالب علم عرفان آفریدی، ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے باشعور لڑکیاں نامی تنظیم سے تربیت حاصل کی ہے۔ وہ سنہ 2015 میں یوتھ پیس نیٹ ورک کا حصہ بنے تھے۔

انہوں نے کہا، "میں حقوقِ نسواں، ان کی تعلیم اور معاشرے میں ان کے کردار کے معاملے میں کافی قدامت پسند تھا۔ تاہم، تربیت حاصل کرنے کے بعد، [۔۔۔] میں نے [سوشل میڈیا] کو نوجوانوں کو حقوقِ نسواں اور امن کی اہمیت کی تعلیم دینے کے لیے بطور ایک پلیٹ فارم استعمال کیا ہے۔"

عرفان نے کہا کہ انہوں نے امن کی حمایت میں بہت سے موسیقی اور ثقافتی شوز کا انتظام کیا ہے، مباحثوں کا اہتمام کیا ہے اور مشہور شخصیات کو امن پر لیکچر دینے کے لیے اپنے خاندان کے زیرِ اہتمام اسکولوں میں مدعو کیا ہے۔

عرفان نے کہا کہ گلالئی نے امن کے لیے پُل بنانے اور طالبان کے خلاف پُرامن مزاحمت کو فروغ دینے، اور ہر پلیٹ فارم پر خواتین اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اور ترقی کرو بہن۔ مجھے تم پر فخر ہے

جواب