سلامتی

پاکستانی زائرین کو ایران کے زرخرید گروہوں میں بھرتی کیا جا رہا ہے

عبدل غنی کاکڑ

شام میں لڑائی کے دوران ہلاک ہونے والے دو پاکستانی مبینہ طور پر آئی آر جی سی کی زینبیون برگیڈ کے لیے لڑ رہے تھے اور انہیں قم، ایران میں 18مئی کو دفن کیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران کی طرف سے پاکستانی شعیہ افراد کو اس کی پراکسی جنگوں میں لڑنے کے لیے بھرتی کیے جانے کو روکنے کے اقدامات کر رہا ہے۔ ]واررپورٹس[

شام میں لڑائی کے دوران ہلاک ہونے والے دو پاکستانی مبینہ طور پر آئی آر جی سی کی زینبیون برگیڈ کے لیے لڑ رہے تھے اور انہیں قم، ایران میں 18مئی کو دفن کیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران کی طرف سے پاکستانی شعیہ افراد کو اس کی پراکسی جنگوں میں لڑنے کے لیے بھرتی کیے جانے کو روکنے کے اقدامات کر رہا ہے۔ ]واررپورٹس[

کوئٹہ -- پاکستانی شعیہ زائرین کا ایران کے اثر و رسوخ کا نشانہ بن جانے اور عراق اور شام میں لڑنے والے، ایران کے زرخرید گروہوں میں بھرتی ہو جانے کا نشانہ بن جانے کے بارے میں تشویش رکھنے والے پاکستانی انٹیلی جنس اور سیکورٹی کے حکام اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے دفاعی اہلکارنے کہا کہ، ستمبر کے آغاز میں جاری ہونے والی ایک پاکستانی انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق، 25 نومبر 2015 اور جون 2017 کے درمیان پاکستان سے تعلق رکھنے والے تقریبا 4,000 شعیہ زائرین ایران گئے مگر واپس نہیں آئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہزاروں دوسرے شعیہ پاکستانی جو جون سے اب تک، ایران میں داخل ہوئے ہیں وہ پاکستانی حکومت کی جانچ پڑتال کا نشانہ ہیں۔

ذریعہ نے مزید کہا کہ "گزشتہ دو سالوں سے، پاکستان سے تہران کی سرحدی کراسنگ کے راستے ایران میں داخل ہونے والے شعیہ زائرین سخت نگرانی میں رہے ہیں"۔

ماتم کرنے والے قم، ایران میں زینبیون برگیڈ کے ایک پاکستانی رکن کا تابوت لے جا رہے ہیں جو شام میں لڑائی کے دوران ہلاک ہو گیا تھا۔ ]فائل[

ماتم کرنے والے قم، ایران میں زینبیون برگیڈ کے ایک پاکستانی رکن کا تابوت لے جا رہے ہیں جو شام میں لڑائی کے دوران ہلاک ہو گیا تھا۔ ]فائل[

ایک پاکستانی فوجی مئی میں ملک کی سرحد پر چوکس کھڑا ہے۔ تہران کی طرف سے پاکستان کے اندر موجود عسکریت پسندوں کو نشانہ بنائے جانے کی دھمکی کے بعد سے ایرانی سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ] پاکستان ڈیفنس[

ایک پاکستانی فوجی مئی میں ملک کی سرحد پر چوکس کھڑا ہے۔ تہران کی طرف سے پاکستان کے اندر موجود عسکریت پسندوں کو نشانہ بنائے جانے کی دھمکی کے بعد سے ایرانی سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ] پاکستان ڈیفنس[

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہمارے انسدادِ دہشت گردی کے ڈیسک نے بتایا ہے کہ شعیہ زائرین کی بڑی تعداد اپنے ویزہ کی معیاد کے بعد بھی ایران میں رہ رہی ہے"۔

تشویش اس بات کی ہے کہ اسلامی انقلابی گارڈ کور (آئی آر جی سی) ان پاکستانیوں میں سے کچھ کو زینبیون برگیڈ کے حصہ کے طور پر، شام میں لڑنے کے لیے بھرتی کر رہی ہے۔

دفاعی اہلکار نے کہا کہ "پاکستانی اور افغان شعیوں کی بڑی تعداد کو ایران میں (فروری 2016 اور اگست 2017 کے درمیان) بھرتی کیا گیا ہے تاکہ وہ صدر بشار الاسد کی حمایت میں شام میں، حزب اللہ اور ایرانی کی پشت پناہی رکھنے والےعراقی عسکریت پسندوں کے لیے لڑ سکیں۔

انہوں نے کہا کہ "غیر ملکی اور دفاعی وزارتیں اس معاملے کی کڑی نگرانی کر رہی ہیں تاکہ ایسے عناصر کے خلاف مناسب قدم اٹھایا جا سکے جو پاکستانی شہریوں کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے کچھ پاکستانیوں نے زائرین کے بہروپ میں ایران کا ویزہ حاصل کیا ہے جب کہ حقیقت میں وہ ملیشیاء کے ارکان ہیں۔ پاکستان میں بھرتی کیے جانے والے کچھ شعیہ جنگجوکوئٹہ سے تافتان تک نقل و حرکت کے لیے زائرین کا بہروپ استعمال کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "انٹیلی جنس کی وفاقی حکومت کے سامنے پیش کی جانے والی رپورٹ میں بھی تجویز کیا گیا ہے کہ پاکستان سے ایران جانے والے زائرین کی نقل و حرکت کی سیکورٹی اور پس منظر کے حوالے سے سخت نگرانی ہونی چاہیے۔ رپورٹ نے مشورہ دیا ہے کہ وفاقی حکومت ایرانی حکام سے اس مسئلے کو وزارتی ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کرے"۔

ایرانی مداخلت پر "کڑی نظر"

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے انٹیلیجنس کے سینئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہمیں اپنے شہریوں کے بارے میں تشویش ہے۔ ہمارے شہریوں کو بیرونِ ملک عسکری اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے عناصر اپنے مقاصد میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے"۔

انہوں نے کہا کہ "حکومت نے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام فرقہ ورانہ عناصر پر کڑی نظر رکھیں۔ انسدادِ دہشت گردی کے ڈیسک پر خدمات انجام دینے والے حکام کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ شعیہ جنگجووُں کو بھرتی کرنے میں ملوث گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کریں"۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی زمین سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کا بھرپور عزم رکھتا ہے۔ "مقامی اور غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں اپنے مقاصد کے لیے یہاں پر امن کو بگاڑنا چاہتی ہیں مگر ہم اپنے امن کے قومی ایجنڈا پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے"۔

انہوں نے کہا کہ "وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت، پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے زینبیون برگیڈ کے مبینہ ارکان اور ان کے ملک کے اندر ٹھکانوں پر بڑے پیمانے پر کریک ڈاون شروع کر دیا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں فرقہ ورانہ دہشت گردی میں ملوث گروہوں کو زیادہ تر مٹا دیا گیا ہے جس میں لشکرِ جھنگوی اور جیش الاسلام کی اعلی قیادت شامل ہے۔ "کچھ کالعدم سنی عسکریت پسند گروہوں کا تعلق طالبان سے جڑا ہے"۔

ایران عسکریت پسندی، فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ نگار محمد ندیم نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ایران عسکریت پسندی کو ہوا دے رہا ہے اور شام کے تنازعہ کو مذہبی جنگ کے طور پر جائز ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایران گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان سے شعیہ جنگجو بھرتی کر رہا ہے اور پاکستانی شعیوں کی زینبیون برگیڈ کی سرگرمیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس چیلنج سے نپٹنا آسان کام نہیں ہے اس لیے پاکستان کو اس مسئلے کو حل کرنے کو اولین ترجیح دینی چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایران تمام اسلامی ممالک میں شعیہ جنگجووُں کا ایک نیٹ ورک قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنے نظریات کو پھیلانے اور مسلمانوں میں تقسیم پیدا کرنے کے لیے فرقہ ورانہ تقسیم کو بڑھانا چاہتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ علاقے میں امن کے عمل کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ ان سب مظالم سے آگاہی کے باوجود مسلمان ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے، ایران کے اس منفی کردار پر ابھی تک خاموش ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ایران کی پاکستان میں پراکسی مصروفیات پاکستان کی قومی سیکورٹی کی حکمتِ عملی کوبہت زیادہ برے طریقے سے متاثر کر رہی ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ زینبیون برگیڈ اچھی طرح سے قائم ہو گئی ہے اور یہ 2013 میں منظر پر آئی تھی۔

ایران کے نظریات کی برآمد

اسلام آباد کے ایک دفاعی تجزیہ نگار کرنل (ریٹائرڈ) نزاکت حسین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "شعیہ جنگجووُں کی بھرتی کے علاوہ، ریڈیو تہران کی طرف سے مسلسل پروپیگنڈا ایران کی طرف سے اپنے نظریات کو ہمسایہ ممالک تک برآمد کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے"۔

انہوں نے کہا کہ علاقے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ کو ہر قیمت پر روکا جانا چاہیے۔

حسین نے تنبیہ کرتے ہوئے کہ ایرانی مداخلت کے معاشی اثرات بھی ہو سکتے ہیں، کہا کہ "ایران اپنے انقلاب کو اسلامی دنیا میں برآمد کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے اور تہران کا نظریہ ہے کہ بھرتی کیے جانے والے شعیہ جنگجو، مبینہ دشمنوں کے خلاف اس کی پالیسیوں کی حفاظت کریں گے"۔

انہوں نے کہا کہ" پاکستان، افغانستان اور علاقے کے دوسرے ممالک میں ایرانی کیحمایت کردہ شورش کا نتیجہ تیل کے کارکنوں کو سبوثاژ کرنے اور ہڑتالوں کی صورت میں نکل سکتا ہے کیونکہ مشرقِ وسطی کے توانائی کے زیادہ تر وسائل شعیہ علاقوں میں موجود ہیں"۔

زد پزیر پاکستانیوں کو بھرتی کرنا

سینئر سیکورٹی تجزیہ نگار میجر (ریٹائرڈ) محمد عمر جن کا تعلق اسلام آباد سے ہے نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پاکستان اور افغانستان دونوں میں ہی شعیہ مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور میرے خیال میں، ان حملوں کے پیچھے محرک ایرانی اثر و رسوخ بھی ہو سکتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "بڑھتے ہوئے تشدد کے باعث، پاکستان کی شعیہ آبادی بہت خوف زدہ ہے کیونکہ وہ ان سنی عسکریت پسند گروہوں کا مرکزی نشانہ ہیں جو زیادہ تر ملک کے مختلف حصوں میں شعیہ مسلمانوں پر حملوں میں ملوث ہوتے ہیں"۔

علاوہ ازیں، زینبیون برگیڈ کو شعیہ عالم چلاتے ہیں جن کے ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔ عمر نے کہا کہ "پاکستانی شعیہ عالموں کی بڑی تعداد نے مشہد اور قم کے مختلف مدرسوں سے تعلیم حاصل کی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایران کے لیے، پاکستان میں بھرتی کے لیے زرخیز علاقوں میں پاراچنار، گلگت، گلگت-بلوچستان، کوئٹہ، حیدر آباد، سوات اور کرم کے قبائلی علاقے کے کچھ علاقے شامل ہیں جو افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 9

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

جیسا کہ پاکستانی فوج کے 2,000 فوجی یمن میں حوثیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ گھبرائیں مت۔ شعیہ مسلمان ہر جگہ اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔

جواب

ہیلو...... ایران آجکل اپنے آپکو پاکستان کے اندر بہت زیادہ ایکٹیو کر رہا ہے..اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران داعش کیخلاف پاکستانی اور افغانی شیعوں کو مزہب کے نام پر استعمال کر رہا ہے.یہ ایک گندا کھیل ہے.حکومت پاکستان کو اسکے خلاف مؤثر کاروایی کرنی چاہیے.اس میں کوۂی شک نہیں ہے کہداعش ایک خطرناک جماعت ہے.اب اسکو اگر کاؤنٹر کرناہے تو منظم فوج کے زریع کرنا چاہیے.جیسے کل کے مجاہد آج کے دہشت گرد بن گۂے ہیں اسی طرح یہ لوگ واپس پاکستان میں آکر سپاہ محمد(کلعدم) تنظیم کیلے کام کر سکتے ہیں,جوکہ بہت خطرناک ہے

جواب

اچھا میں شاہد ہوں

جواب

میں فیضو صاحب سے متفق ہوں، ہمارا نظام ان نام نہاد رہنماؤں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے جو انسانی اور مذہبی حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جاری آپریشن ردّالفساد ان عناصر کے خاتمہ کے لیے ایک فوری اور مناسب اقدام ہے۔

جواب

مسئلہ یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب اپنی جنگیں دوسروں کی سرزمین پر لڑ رہے ہیں۔۔۔ اور ہماری بیوقوف آبادی جنّت کی جانب جانے والے مختصر راستے کے عوض کرائے کے سپاہی بنی ہوئی ہے۔۔۔ بنا یہ جانے کہ یہ جہاد نہیں بلکہ فساد فی الارض ہے۔

جواب

سعودی عرب بھی بھرتیاں کر رہا ہے لیکن پاکستان ایک سنّی قدامت پسند ریاست ہے، لہٰذا شام اور عراق کے کیے سعودی بھرتیوں پر کسی کاروائی کی ضرورت نہیں۔ ایک مرتبہ پھر شکریہ

جواب

ایران ہی نہیں! سعودی عرب بھی شام کی جنگ کے لیئے جنگجو بھرتی کر رہا ہے۔۔۔۔ کوئی اس پہلو کو کیوں اجاگر نہیں کرتا؟

جواب

دراصل نہایت جامع مقالہ ہے؛ پاکستان فارورڈ کا خوب کام؛ امّید ہے کہ آپ امن مخالف عناصر کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے رہیں گے۔ پاکستان زندہ باد

جواب

ایک نہایت ہیبت ناک اور آنکھیں کھول دینے والی رپورٹ۔ امّید ہے کہ وفاقی حکومت دشمنانِ پاکستان کے خلاف سخت کاروائی کرے گی۔

جواب