میڈیا

'پاکستان گرل' نوجوانوں کو ناانصافی کے خلاف جنگ پر اُکساتی ہے

اے ایف پی

ایک شخص اسلام آباد میں 15ستمبر کو پاکستان گرل کا ایک شمارہ پڑھ رہا ہے۔ پاکستانی کی تازہ ترین ہیروئن نے بدعنوانی سے جنگ کرنے اور تشدد کا نشانہ بننے والی عورتوں کی حفاظت کرنے کا عہد کیا ہے اور اس کا تخلیق کاراگلی نسل کو ناانصافیوں سے لڑنے پر اُکسانے کی کوشش کرتا ہے۔ ]فاروق نعیم/ اے ایف پی[

ایک شخص اسلام آباد میں 15ستمبر کو پاکستان گرل کا ایک شمارہ پڑھ رہا ہے۔ پاکستانی کی تازہ ترین ہیروئن نے بدعنوانی سے جنگ کرنے اور تشدد کا نشانہ بننے والی عورتوں کی حفاظت کرنے کا عہد کیا ہے اور اس کا تخلیق کاراگلی نسل کو ناانصافیوں سے لڑنے پر اُکسانے کی کوشش کرتا ہے۔ ]فاروق نعیم/ اے ایف پی[

اسلام آباد -- پاکستانی کی تازہ ترین سُپر ہیروئن نے بدعنوانی سے جنگ کرنے اور تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی حفاظت کرنے کا عہد کیا ہے اور اس کا تخلیق کار ایک انتہائی پدری معاشرے میں اگلی نسل کو ناانصافی سے لڑنے پر تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

نئی "پاکستان گرل" نامی کامک سیریز سارہ نامی لڑکی پر بنیاد رکھتی ہے جو کہ ایک عام نوجوان لڑکی ہے جس کی ایک پالتو بلی ہے اور اپنے گاوُں میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد بے ہوشی سے جاگنے پر وہ دریافت کرتی ہے کہ اس میں زبردست طاقت موجود ہے۔

اس موسمِ گرما میں جاری ہونے والی اس سیریز کی پہلی کامک بُک میں، سارہ ایک بازار میں عورت کو مارنے والے ایک شخص کو کوڑے مارتی ہے اور رشوت خور پولیس افسر کی طرف سے اغوا کی جانے والی کم سن لڑکی کو بچاتی ہے۔

انگریزی زبان کی اس کامک کے تخلیق کار کا کہنا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ سُپرہیروئن پاکستان بھر میں نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک مثالی کردار ثابت ہو گی اور ان کی حوصلہ افزائی کرے گی کہ وہ بدعنوانی اور تشدد کے خلاف جنگ کریں۔

مصنف حسن صدیقی نے اے ایف پی کو بتایا کہ "یہاں پر مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ میں خاتون مثالی کرداروں اور سُپر ہیروز کی بہت زیادہ کمی ہے"۔

"ہم پاکستان میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے بھی، ایک مضبوط خاتون کردار بنانا چاہتے تھے جس کی وہ پیروی کر سکیں"۔

پاکستان میں عورتوں نے کئی دیہائیوں سے اپنے حقوق کے لیے جنگ کی ہے جہاں نام نہاد "عزت کے نام پر قتل" اور خواتین کے خلاف دوسرا تشدد ابھی بھی عام ہے۔

سوشل میڈیا کے استعمال کنندگان نے اس کامک کو خوش آمدید کہا ہے اور عمومی طور پر آن لائن مثبت جائزے لکھے ہیں اور مستقبل میں سُپر ہیروز کی مزید کہانیوں کا مطالبہ کیا ہے۔

ایک پرستار سید حسن ناصر نے فیس بک پر لکھا کہ "یہ آپ لوگوں کی طرف سے اٹھایا جانے والا انتہائی شاندار قدم ہے۔۔۔ میں مارول اور ڈی سی کامکس کا بہت بڑا پرستار ہوں اور اس کا بھی بے چینی سے انتظار کر رہا ہوں"۔

صدیقی اب کامک کے اردو ترجمے پر کام کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور ان کا مقصد ملک بھر میں لاکھوں قارئین تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ وہ اس کو اینیمیشن کی شکل دینے پر بھی غور کر رہے ہیں۔

نئے سامعین تک رسائی

پاکستان میں ناخواندگی کی شرح کافی بلند ہے مگر امید ہے کہ اس کامک سے لڑکیوں اور لڑکیوں میں اس شرح کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

نئی پرستار اور اسکول کی پرنسپل سعدیہ عدنان امید کرتی ہیں کہ کامک بچوں کو تعلیم دینے کا ایک نیا طریقہ فراہم کرے گی اور اس کے ساتھ ہی انہیں صنفی دقیانوسیت سے دور رکھے گی۔

کتابوں کی دکان کی ایک کاپی کا جائزہ لینے کے بعد سعدیہ عدنان نے کہا کہ "میرا خیال ہے کہ ہمیں انہیں اس طرح کے ادب کے ذریعے سکھانا چاہیے کیونکہ یہ حقیقی طور پر وہ نازک عمر ہے جہاں وہ اپنی مسقبل کی زندگی کا اپنا ایک تصور قائم کر رہے ہوتے ہیں"۔

ماضی کے ہیروز

پاکستانی کی تازہ ترین تخلیق ان کی اس سے پہلے کی کامک سیریز "پاکستان مین" کی کامیابی کی تقلید کرتی ہے جس میں مونچھوں والا ایک ہیرو اپنے دشمن جس کا نام "دی کرپٹر" ہے اور ایک اور ولن جو یوٹیوب پر پابندی لگانے کے ذمہ دار ہے، سے جنگ کرتا ہے۔

اسلام آباد کی سب سے بڑی کتابوں کی دکان سید بک بینک کے مالک، احمد سید نے کہا کہ "صدیقی کی پہلی کامک "پاکستان مین" ہاتھوں ہاتھ بک گئی تھی اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب بھی جو کہ پہلے ہی کافی اچھی فروخت ہو رہی ہے، اس کی پیروی کرے گی"۔

"پاکستان گرل" ملک کی 2013 کی مشہور کامک "دی برقعہ ایونجر" کے نقشِ قدم پر بھی چلتی ہے جس میں نرم انداز کی ایک استاد کی مہمات بیان کی گئی ہیں جو ان بدمعاشوں سے لڑتی ہے جو لڑکیوں کے اس اسکول کو بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں وہ کام کرتی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500