دہشتگردی

پاکستان داعش کے خطرے کو روکنے کے لیے باضابطہ پالیسی پر کام کر رہا ہے

عدیل سید

ایک پاکستانی لڑکا 14 ستمبر کو پشاور میں 'دولتِ اسلامیہ' (داعش) کا مواد رکھنے والی ویب سائٹ دیکھ رہا ہے۔ پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے حکام شہریوں خصوصی طور پر وہ جنہوں نے تنازعات کے شکار ممالک کا دورہ کیا ہو، کے سفر کی جانچ پڑتال کرنے سے، داعش کو شکست دینے کے لیے ایک پالیسی بنا رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

ایک پاکستانی لڑکا 14 ستمبر کو پشاور میں 'دولتِ اسلامیہ' (داعش) کا مواد رکھنے والی ویب سائٹ دیکھ رہا ہے۔ پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے حکام شہریوں خصوصی طور پر وہ جنہوں نے تنازعات کے شکار ممالک کا دورہ کیا ہو، کے سفر کی جانچ پڑتال کرنے سے، داعش کو شکست دینے کے لیے ایک پالیسی بنا رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

پشاور -- پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے حکام شہریوں خصوصی طور پر وہ جنہوں نے تنازعات کے شکار ممالک کا دورہ کیا ہو، کے سفر کی جانچ پڑتال کرنے سے، 'دولتِ اسلامیہ' (داعش) کے خطرے کو شکست دینے کے لیے ایک باضابطہ پالیسی بنا رہے ہیں۔

پاکستان کی قومی انسدادِ دہشت گردی کی اتھارٹی (این اے سی ٹی اے) کی طرف سے تیار کی جانے والی پیش رفت رپورٹ کے مطابق، حکومت کی طرف سے دو سال سے پہلے نافد کیے جانے والے قومی سیکورٹی پلان (این اے پی) کے بعد سے، سیکورٹی فورسز نے 1,800 سے زیادہ عسکریت پسندوں کو ہلاک اور 5,500 سے زیادہ مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے۔

یہ رپورٹ، جسے اگست کے آخری ہفتے میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، میں این اے سی ٹی اے کی طرف سے ایسے پاکستانی شہریوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو اجاگر کیا گیا ہے جنہوں نے داعش کی موجودگی والے ممالک کا دورہ کیا ہو جیسے کہ افغانستان، عراق، شام اور یمن۔

اس میں دہشت گردوں کی سرمایے کی فراہمی کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کو بھی تجویز کیا گیا ہے۔

غیر ملکی سفر کے بارے میں معلومات جمع کرنا

این اے سی ٹی اے کے سربراہ احسان غنی نے وائس آف امریکہ (وی او اے) کو بتایا کہ "اس بات کی اطلاعات تھیں کہ پاکستانی شہریوں کی بڑی تعداد نے داعش میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے متنازعہ علاقوں کا سفر کیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ڈیٹا بیس سسٹم کے تحت ہم ایسے ملزمان کے بارے میں معلومات جمع کر رہے ہیں، تصدیق کے بعد ہم اسے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فراہم کر دیں گے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایجنسی ایسے پاکستانی شہریوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہے جو اپنے ویزہ کے ختم ہو جانے کے بعد بھی بیرونِ ملک رہے ہیں۔

غنی نے نیوز انٹرنیشنل کو بتایا کہ "ہمارے پاس ان لوگوں کے بارے میں بہت سی معلومات ہیں جو ان علاقوں سے واپس نہیں آئے ہیں اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ تمام لوگ جو منتازعہ علاقوں میں گئے تھے وہ دہشت گرد ہی تھے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ ملازمت کی تلاش میں یورپ پہنچ گئے ہوں، اس لیے ابھی ہم تفتیش کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم ان وجوہات کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے باعث یہ عسکریت پسند ایسے علاقوں میں جاتے ہیں"۔

این اے سی ٹی اے نے وی او اے کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ دہشت گردوں کو سرمایے کی فراہمی ایک اور "بڑا چیلنج" ہے۔ ہم ان تمام ذرائع کو ختم کر دینا چاہتے ہیں جن سے دہشت گرد ممکنہ طور پر سرمایہ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ آسان نہیں ہے مگر ہم درست سمت میں جا رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے ہم نے ایک ٹاسک فورس بنا لی ہے"۔

این اے سی ٹی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے دہشت گردوں کو پیسے کی فراہمی روکنے کی کوشش میں تقریبا 3 ملین ڈالر (316.2 ملین روپے) اور مبینہ دہشت گردوں کے 5,000 بینک اکاونٹس کو منجمند کر دیا ہے۔

مذہبی بنیاد پرستی کے بارے میں بات چیت

سیکورٹی کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ داعش کے اثر و رسوخ کو پاکستان میں پھیلنے سے روکنے کے لیے این اے سی ٹی اے کے اقدامات قابلِ تعریف اور بر وقت ہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ جو کہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے سابقہ سیکورٹی سیکریٹری بھی ہیں، نے کہا کہ "اگر ہم بنیاد پرست عناصر کو مذہب کے نام پر اپنے ہم وطنوں کو گمراہ کرنے سے حقیقی طور پر روکنا چاہتے ہیں تو یہ درست سمت میں درست قدم ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "مذہبی بنیاد پرستی پاکستان کے لیے خطرہ ہے اور اپنے ہم وطنوں کو اس کا نشانہ بننے سے روکنے کے لیے ہمیں ہر ممکن اقدامات کرنے ہوں گے"۔

شاہ نے کہا کہ شہریوں کے سفر کے بارے میں جانچ پڑتال کرنا ترقی یافتہ ممالک میں عام بات ہے اور اس کا مقصد ان لوگوں پر نظر رکھنا ہے کو دنیا کے متنازعہ علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے مسافروں کے بارے میں معلومات کو اکٹھا کرنا موثر ثابت ہوا ہے۔

انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ حکام پاکستان آنے والے غیر ملکیوں کو زیادہ سختی سے کنٹرول کرے۔

انہوں نے کہا کہ "ہر طرح کے مسافروں کے لیے امیگریشن کے قوانین کو سخت بنایا جانا چاہیے تاکہ کوئی مشتبہ شخص پاکستان میں داخل نہ ہو سکے"۔

پشاور یونیورسٹی کے لیکچرار اور بنیاد پرستی کو ختم کرنے کے ماہر محمد ظفر نے کہا کہ "ملک میں مذہبی بنیاد پرستی کو روکنے کے لیے پالیسی بنانا ناگزیر ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پاکستانی نوجوان بنیاد پرستانہ نظریات کا بہت آسانی سے شکار بن سکتے ہیں کیونکہ ان کا مذہبی بنیادوں پر آسانی سے استحصال کیا جا سکتا ہے اور انہیں گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سماجی سرگرمیوں کے نہ ہونے، بے روزگاری، محدود ثقافتی اصولوں اور عدم تحفظ نے اس زدپزیری میں اضافہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "سوشل میڈیا نوجوانوں کو مذہبی بنیاد پرستی اختیار کرنے کی طرف متوجہ کرنے اور قائل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور انٹرنیٹ کا بہت زیادہ استعمال سماجی سرگرمیوں کی کمی کا نتیجہ ہے"۔

ظفر نے کہا کہ "بنیاد پرستانہ عناصر کو اپنے ملک میں کام کرنے سے روکنے کے علاوہ ہمیں ملک کے شہریوں کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنے پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے"۔

متشدد انتہاپسندی کا مقابلہ کرنا

پشاور یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جمیل احمد چترالی نے کہا کہ بنیاد پرستی کے خلاف ایک سرکاری پالیسی بنانا "اس لعنت کے خطرے کو روکنے کے لیے بہت اہم ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ موثر پالیسی کی غیر موجودگی کے باعث، پاکستان میں مذہبی بنیاد پرستی بڑھ رہی ہے اور بنیاد پرست عناصر "معاشرے کے ہر طبقے کو نشانہ بنا رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مسافروں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے سے داعش کے خطرے کو قابو کرنے میں مدد ملے گی مگر پاکستان کو اس سلسلے میں ایل سخت سرکاری پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔

چترالی نے پاکستان میں کام کرنے والے امن کے سرگرم کارکنوں کے کام کی تعریف کرنے کی تجویز بھی پیش کی تاکہ انتہاپسند نظریات کا مقابلہ کرنے اور دوسروں کی ایسا ہی کرنے پر حوصلہ افزائی کرنے کے لیے، اچھے کام کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ "متشدد انتہاپسندی کی سوچ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں لوگوں کے خیالات کو بدلنے کے لیے سخت محنت کرنی ہو گی اور اس کے لیے ان کی توجہ کو ترقیاتی اور فلاحی سرگرمیوں کی طرف منتقل کرنا ہو گا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500