سلامتی

ایلیٹ افغان فورس طالبان، داعش کے لیے باعثِ پریشانی

اے ایف پی

27 جولائی کو کابل میں افغان سپیشل فورس ایک مشق کر رہی ہے۔ جلد ہی افغان کمانڈو طالبان کے خلاف ہراول دستہ ہوں گے۔ [شاہ مرائی/اے ایف پی]

27 جولائی کو کابل میں افغان سپیشل فورس ایک مشق کر رہی ہے۔ جلد ہی افغان کمانڈو طالبان کے خلاف ہراول دستہ ہوں گے۔ [شاہ مرائی/اے ایف پی]

کابل — آر پی جی – 7 راکٹ لانچرز سے لیس، افغانستان کی ماہر ترین لڑاکا فورس – ایک چنیدہ گروہ جس کی بڑھتی ہوئی طاقت، مشاہدین کے مطابق، طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کو پریشان کیے دے رہی ہے-- کے کمانڈو سینکڑوں میٹر دور ایک ٹینک کا نشانہ باندھ رہے ہیں۔

افغانستان کی سپیشل آپریشنز کمانڈ (ایس او سی) کے یہ نئے ارکان جلد ہی اس جنگ کا ہراول دستہ ہوں گے جس سے متعلق امریکہ نے بلا تصریح مزید امریکی فوجی محاذ پر لا کر”جیتنے“ کا عزم کر رکھا ہے۔

کابل کے قریب ایک سابق سوویت چھاؤنی کیمپ مورہیڈ ان دو تربیتی چھاؤنیوں میں سے ایک ہے جہاں امریکی قیادت میں بین الاقوامی افواج کی زیرِ نگرانی ایک پروگرام میں افغان تربیت کنندگان کمانڈوز کی تربیت کرتے ہیں۔

جبکہ ایس او سی – جس میں چوٹی کی مخصوص افواج بھی شامل ہیں – افغان قومی دفاعی و سلامتی افواج کے 7 فیصد پر مشتمل ہیں اور تقریباً 80 فیصد جارحانہ کاروائیوں میں تعینات کی گئی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر مرتبہ کامیاب ہی لوٹی ہیں – اس دعویٰ کی امریکی اور غیر ملکی افواج نے توثیق کی ہے۔

رواں برس کے اوائل میں افغان صدر اشرف غنی نے چار سالہ روڈ میپ جس کا مقصد افغانستان کی فضائیہ کو مستحکم کرنا بھی ہے، کے جزُ کے طور پر ان کی تعداد 17,000 سے تقریباً دوگنی کرنے کا حکم دیا۔

کیمپ مورہیڈ پر، جسے قبل ازاں طالبان بھی تربیتی سرزمین کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں، کماںڈوز جنگ پر جانے سے قبل کئی ماہ کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔

وہ شمال میں صوبہ کندوز سے لے کر جنوب مغرب میں صوبہ ہلمند تک طالبان سے خطرہ کی زد میں دیہات کا دفاع کرتے ہیں اور شورشیوں کی کمین گاہوں پر – اپنی مہارت – شب خون مارتے ہیں۔

ایک افغان سپاہی نے کہا، ”اچھی حالت میں ہونا ہی آپ کے لیے بہتر ہے، انتخاب کے ہفتہ کے دوران انہیں 25 کلوگرام بیگ کے ساتھ بھاگنا اور پھر واپس لوٹنا ہوتا ہے۔“

'ناقابلِ شکست'

دسمبر 2014 میں جب سے امریکی قیادت میں نیٹو افواج نے اپنے جنگی مشن کا اختتام کیا، افغانستان کی سپیشل فورسز اور کمانڈوز نے ”دولتِ اسلامیۂ“ (داعش) سمیت طالبان اور دیگر اسلامی عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے کیے گئے حملوں کے خلاف فصیل کا کام کیا ہے۔

ایک امریکی جرنیل نے کہا، ”ان کے اس قدر باکمال ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں دنیا کی بہترین افواج میں سے چند نے تربیت دی ہے۔“

”جب سپیشل فورسز کو تعینات کیا جاتا ہے، وہ کبھی شکست نہیں کھاتیں۔ اگر ہم انہیں دوگنا کر دیں، تو اس کا مطلب ایک نمایاں استعداد ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ طالبان فکرمند ہیں۔“

افغانستان میں اعلیٰ ترین امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے حال ہی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اضافی امریکی افواج افغان افواج کی تربیت کو بہتر بنائیں گی اور افغان فضائی اور سپیشل آپریشنز جنگجوؤں کو وسیع کریں گی۔

اگرچہ افغان سیکیورٹی فورسز از خود لڑنے کے لیے تیار نہیں، نکولسن نے ان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”طالبان میدانِ جنگ میں جیت نہیں سکتے۔“

ان کے آپریشنل کمانڈر کرنل احمد ذبیح اللہ نے کہا، ”جیسے ان کی (سپیشل آپریشنز فورسز) کی تعداد میں اضافہ ہو گا، ہم ملک کے مزید حصّہ کو کور کریں گے اور ہم مزید مشنز کر سکیں گے۔“

وزارتِ دفاع کے ترجمان جنرل دولت وزیری پر اعتماد ہیں کہ بالآخر افغان افواج ہی سرخرو ہوں گی۔

انہوں نے کہا، ”کیا ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں؟ ہاں، ہم یہ جنگ جیتیں گے۔ افغانستان زندہ باد۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اللہ اسے کامیابی عطا فرمائے!

جواب