دہشتگردی

پُرامن عید الاضحیٰ خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی کی کامیابی کو نمایاں کرتی ہے

از جاوید خان

یکم ستمبر کو پشاور میں ایک پولیس اہلکار اس اسلحے اور بارودی مواد کی نمائش کرتے ہوئے جو پولیس نے ایک بڑی کارروائی میں برآمد کیا تھا۔ پولیس نے اس کارروائی میں 87 گرفتاریاں کی تھیں۔ [جاوید خان]

یکم ستمبر کو پشاور میں ایک پولیس اہلکار اس اسلحے اور بارودی مواد کی نمائش کرتے ہوئے جو پولیس نے ایک بڑی کارروائی میں برآمد کیا تھا۔ پولیس نے اس کارروائی میں 87 گرفتاریاں کی تھیں۔ [جاوید خان]

پشاور -- کئی دہشت گرد گروہوں کی ٹوٹ پھوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، حکام نے پاکستان فارورڈ کو بتایا ہے کہ حالیہ مہینوں میں خیبرپختونخوا (کے پی) میں پولیس اور دیگر دفاعی اداروں کی جانب سے نمایاں کامیابیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ ان کامیابیوں نے عید الاضحیٰ کے دوران کسی قتلِ عام کو روک دیا ہو۔

پشاور کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) برائے آپریشنز، سجاد خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم نے یکم ستمبر کو خیبر ایجنسی سے ملحقہ دیہات میں مخبری کی بنیاد پر کارروائی کے دوران اسلحے کی ایک بہت بڑی کھیپ برآمد کرتے ہوئے ایک بڑی دہشت گردی کو ناکام بنا دیا۔"

انہوں نے کہا کہ یکم ستمبر کو علی الصبح --عید سے ایک روز قبل-- ہونے والی کارروائی میں 450 پولیس اہلکار اور 120 فوجی شامل تھے۔

پشاور کے ایس ایس پی خان نے کہا کہ کارروائی کے دوران، حکام نے "ریگی پولیس تھانے کی حدود میں 51 راکٹ شیل، 17 ہینڈ گرنیڈز، 18 اے کے 47، 16 رائفلیں اور 28 پستول برآمد کیے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اس کارروائی میں، حکام نے عید کے دوران پشاور پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے 87 ملزمان کو گرفتار کیا۔

دریں اثناء، سوموار (4 ستمبر) کو ڈان نے خبر دی تھی کہ صوابی پولیس نے عید کے لیے جاری حفاظتی اقدامات سے متعلقہ تلاشی کی کارروائیوں میں 120 کی تعداد تک ملزمان کو گرفتار کیا۔

جاری کامیابی

کے پی پولیس کے سپرنٹنڈنٹ وقار احمد نے کہا، "دہشت گردی میں ملوث بہت سے گروہوں کو کچل دیا گیا ہے اور ان کے بہت سے ارکان کو گزشتہ مہینوں کے دوران گرفتار کر لیا گیا ہے جس سے پشاور اور باقی ماندہ کے پی میں امن و امان بہتر ہوا ہے۔"

بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگز، اغواء، بھتہ خوری اور پولیس اور دیگر اداروں پر حملوں کی تعداد میں کمی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اگر آپ اس کا گزشتہ برسوں سے موازنہ کریں، اس سال کے دوران ہونے والے واقعات گزشتہ 10 برسوں سے کہیں کم ہیں۔"

جو لوگ ان واقعات کی کوریج کرتے ہیں انہیں بھی صورتحال بہتر نظر آتی ہے۔

قیصر خان، ایک صحافی جنہیں خیبر پختونخوا میں فساد کی کوریج کرتے ہوئے اب ایک دہائی ہو گئی ہے، نے کہا، "گزشتہ کئی ماہ سے کے پی میں امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری ہوئی ہے۔"

خان نے مزید کہا کہ پولیس اور دیگر دفاعی اداروں نے قربانیاں پیش کی ہیں اور امن بحال کرنے کے لیے کچھ انتہائی حساس کارروائیاں کی ہیں۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایک یا دوسرے محکمے کی جانب سے ہمیشہ انتباہ جاری ہوتے رہتے ہیں لیکن پولیس نے گروہوں کو اپنے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے سے قبل ہی گرفتار کرتے ہوئے بہت اچھا کام کیا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500