معیشت

پاکستان میں دہشت گردی سے جنگ کی بھاری معاشی قیمت چکانی پڑی ہے

عدیل سید

فروری میں پشاور میں پولیس افسران ایک مورچے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

فروری میں پشاور میں پولیس افسران ایک مورچے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

پشاور -- حکام کا کہنا ہے کہ دکھ اور قربانیوں کی شکل میں نہ قابلِ بیان لاگت کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی جیب پر بھاری پڑی ہے۔

وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے 24 اگست کو سینٹ کو بتایا کہ گزشتہ 16 سالوں کے دوران دہشت گردی کے باعث ملک کو "120 بلین ڈالر (12.6 ٹریلین روپے) سے زیادہ کا معاشی نقصان" برداشت کرنا پڑا ہے۔

آصف نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیرِ داخلہ احسان اقبال، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور سیکورٹی کے دوسرے اعلی اہلکاروں کے ساتھ ایک کانفرنس کے بعد سینٹ سے خطاب کیا۔

کانفرنس میں افغانستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے، بہتر سرحدی انتظام، افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور افغان امن عمل کو دوبارہ سے بحال کرنے جیسے موضوعات پر بات چیت کی گئی۔

فروری میں پشاور میں ایک پولیس افسر موٹرسائیکل پر سوار ایک شخص کے کاغذات چیک کر رہا ہے۔ ]عدیل سید[

فروری میں پشاور میں ایک پولیس افسر موٹرسائیکل پر سوار ایک شخص کے کاغذات چیک کر رہا ہے۔ ]عدیل سید[

پشاور کے ایک تاجر اور سرحد ایوانِ صنعت و تجارت کے سابقہ بورڈ ممبر ضیاء الحق سرحدی نے کہا کہ "ملک کے وسائل کا بڑا حصہ دہشت گردی سے جنگ کرنے اور متاثرین کو امداد فراہم کرنے کی طرف لگا ہوا ہے۔ اس بڑی قیمت نے عوام کو سماجی-معاشی ترقی اور فلاحی منصوبوں سے محروم کر رکھا ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت لچک دکھائی ہے اور امید ہے کہ عسکری مہمات جیسے کہ ضربِ عضب اور ردالفساد جلد بارآور ہوں گی۔

دہشت گردی کا بوجھ

دہشت گردی کا معاشی بوجھ، جدوجہد کی شکار معیشتوں جیسے کہ خیبرپختونخواہ (کے پی) صوبہ کی ہے، کو زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔

کے پی کی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق، 2009 سے 2016 تک، آٹھ سالوں کے دوران اس نے سیکورٹی کے اقدامات پر 190.9 بلین روپے (1.9 بلین امریکی ڈالر) خرچ کیے ہیں۔

کے پی کے وزیرِ مالیات مظفر نے کہا کہ صوبے کو دہشت گردی سے جنگ کرنے کے لیے ابھی بھی مزید سرمایے کی ضرورت ہے۔

سید نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اگر کے پی میں صورتِ حال پرامن رہتی تو سیکورٹی پر خرچ کی جانے والی رقم میں سے آدھی سے زیادہ ترقی اور فلاحی کاموں پر خرچ ہو سکتی تھی"۔

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی پر آنے والا بہت زیادہ خرچہ "کے پی کی نازک معیشت پر بوجھ ہے"۔

کے پی کے وزیرِ اطلاعات شاہ فرمان نے پاکستان فارورڈ کو جانوں اور املاک کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حکومت کے فنڈز جن سے عوام کو فائدہ ہو سکتا تھا، کو اپنی طرف کھنچنے کے علاوہ، دہشت گردی نے "علاقے کے سماجی-معاشی تانے بانے کو بھاری نقصان پہنچایا ہے"۔

معاشی اور ذاتی نقصانات

پشاور کے چیمبر آف ٹریڈرز اینڈ سمال انڈسٹری کے سابقہ صدر احتشام حلیم دہشت گردوں کی طرف سے پہنچائے جانے والے معاشی و ذاتی دونوں نقصانات کی گواہی دے سکتے ہیں۔

انہوں نے بہت سے کاروباری مالکان کا حوالہ دیتے ہوئے جو پاکستان کے دوسرے حصوں یا بیرونِ ملک چلے گئے، پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "انتہاپسندوں کے تشدد نے علاقے میں کاروباروں اور تجارتی سرگرمیوں کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے"۔ ان کے چلے جانے کا مطلب سرمایے کی بڑی مقدار کا چلا جانا بھی ہے۔

احتشام کو اُس وقت اس سے کہیں بڑا المناک ذاتی نقصان بھی اٹھانا پڑا جب ان کے والد، حاجی حلیم جان کو فروری 2016 میں قصہ خوانی بازار میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ حلیم جان نے بھتہ خوروں کو رقم ادا کرنے سے انکار کیا تھا۔

احتشام نے کہا کہ اس وقت سے، وہ اور ان کا خاندان بھتہ خوروں کی طرف سے مزید حملوں کے خوف کے ساتھ زندہ ہے۔

احتشام نے کہا کہ "گزشتہ ڈیڑھ سال سے، ہم سیکورٹی کے خدشات کے باعث اپنے کاروبار کو کافی وقت نہیں دے سکے ہیں۔ اس لیے ہمیں مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایسے بہت سے دوسرے افراد بھی موجود ہیں جن کے ایسے ہی واقعات ہیں کیونکہ بھتہ خور رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انہیں اور ان کے اہلِ خاندان پر حملے کر رہے ہیں"۔

انہوں نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ "اس لعنت کو شکست دینے کی جنگ ہمارے وسائل کو ضائع کر رہی ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500