پناہ گزین

پاکستان میں مقیم افغانیوں کی رجسٹریشن کی رفتار میں اضافہ

از جاوید خان

22 اگست کو پشاور میں ایک افغان خاندان ایک مرکز پر موجود ہے۔ پاکستان نے 16 اگست سے پورے ملک میں اندازاً 6 لاکھ سے 10 لاکھ غیر اندراج شدہ افغانیوں کو رجسٹر کرنے کی چھ ماہ پر محیط ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔ [جاوید خان]

22 اگست کو پشاور میں ایک افغان خاندان ایک مرکز پر موجود ہے۔ پاکستان نے 16 اگست سے پورے ملک میں اندازاً 6 لاکھ سے 10 لاکھ غیر اندراج شدہ افغانیوں کو رجسٹر کرنے کی چھ ماہ پر محیط ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔ [جاوید خان]

پشاور -- پاکستانی حکام پورے ملک میں ملک کی سب سے بڑی افغان پناہ گزینوں کی آبادی کو رجسٹر کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔

پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں کو رجسٹر کرنے کی چھ ماہ پر محیط مہم میں تیزی آ رہی ہے کیونکہ خیبر پختونخوا (کے پی) اور پورے ملک میں قائم کردہ مراکز پر زیادہ سے زیادہ خاندان پہنچ رہے ہیں۔

پورے ملک میں قائم ہونے والے 20 مراکز میں سے نصف کے پی میں قائم کیے گئے ہیں کیونکہ قانونی طور پر مقیم پناہ گزینوں، نیز غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں، کی اکثریت اب صوبے میں لگ بھگ 40 برسوں سے مقیم ہے۔

ڈائریکٹر جنرل برائے پناہ گزین خیبرپختونخوا، وقار معروف نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "مہم کا باضابطہ آغاز 16 اگست کو پورے صوبے [اور ملک] میں ہوا تھا، جس کے تحت ایسے افغان باشندے جن کے پاس کسی قسم کی کوئی دستاویزات نہیں ہیں ان کا اندراج کیا جائے گا اور انہیں افغان شہریت (اے سی) کارڈ دیئے جائیں گے۔"

انہوں نے کہا کہ پشاور اور نوشہرہ میں دو دو مراکز قائم کیے گئے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ دیگر مراکز مردان، مانسہرہ، دیر، ہنگو، کوہاٹ اور ہری پور میں موجود ہیں۔

معروف نے کہا، "ابھی تک ردِعمل بہت اچھا ہے، کیونکہ پورے صوبے میں قائم 10 مراکز پر روزانہ اوسطاً لگ بھگ 2،200 افراد کا اندراج کیا جا رہا ہے۔"

معروف نے مزید کہا، "کے پی میں 26 اگست تک 14،000 تک کی تعداد میں لوگوں کا اندراج کیا گیا تھا، جبکہ دیگر 11،000 افغانوں کا ملک کے دوسرے صوبوں میں اندراج کیا گیا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ صرف 26 اگست کو ہی، کے پی حکام نے 2،213 غیر قانونی افغانوں کا اندراج کیا تھا۔

پاکستان کی ریاستوں اور سرحدی علاقوں کی وزارت (سیفرون)، قومی محکمۂ ڈیٹابیس و اندراج (نادرا) اور افغان وزارتِ پناہ گزین و مراجعت اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اور مہاجرت کی بین الاقوامی تنظیم (آئی او ایم) کے تعاون سے منصوبے کی نگرانی کر رہے ہیں۔

اندراج کے ششماہی ابتدائی منصوبے کا آغاز 20 جولائی کو صرف پشاور اور اسلام آباد میں ہوا تھا، لیکن پورے ملک میں مہم 16 اگست کو شروع ہوئی۔

نئے کارڈز، دفاعی تشویشیں

یو این ایچ سی آر جس نے پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں کی تعداد کا تخمینہ 6 لاکھ سے 10 لاکھ لگایا ہے، نے اندراج کے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے۔

یو این ایچ سی آر کی ترجمان برائے جنوبی ایشیاء، دنیا اسلم خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہ اقدام اہمیت کا حامل ہے اور ہزاروں افغانیوں کے قیام کو منضبط کرنے میں مدد کرے گا جو اپنے ملک واپس لوٹنے کے قابل نہیں ہیں۔"

انہوں نے کہا اے سی کارڈ جو افغان لینے کے لیے کھڑے ہیں انہیں گرفتاری کی صورت میں ملک بدری سے قانونی تحفظ فراہم کریں گے، انہوں نے مزید کہا کہ اے سی کارڈز افغانوں کو پاکستان میں اس وقت تک قیام کرنے کے قابل بنائیں گے جب تک کہ انہیں ایک افغان پاسپورٹ یا دیگر سفری دستاویزات مل جائیں۔

جولائی میں جاری ہونے والے ایک باضابطہ بیان کے مطابق، انہوں نے کہا، "اس عمل کا آغاز افغانی اور پاکستانی حکومتوں اور یو این ایچ سی آر کے درمیان تین برسوں کی مشاورت کے بعد شروع ہوا ہے۔"

کارڈ کا اجراء ایک دفاعی سردرد کا سرکاری جواب ہے جس کا پاکستان نے عشروں سے سامنا کیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں، خصوصاً کے پی میں، نے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی غیر ملکی مہمانوں کی وجہ سے تکلیف برداشت کی ہے۔

ایسے افغان پناہ گزینوں جو کسی بھی حکومت یا بین الاقوامی ادارے کے پاس رجسٹر نہیں تھے اگر وہ جرائم یا دہشت گردی میں ملوث ہو جاتے تو ان کا سراغ لگانا مشکل تھا۔

کے پی پولیس کے ایک ترجمان، وقار احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "رجسٹریشن کا عمل پاکستان میں مقیم تمام لوگوں کے کوائف حاصل کرنے میں پاکستانی محکموں کی مدد کرے گا۔ انہیں جاری کیے جانے والے کارڈ پاکستان میں ان کے قیام کو قانونی بنانے میں مدد دیں گے۔"

احمد نے مزید کہا، "یہ عمل امن و امان کو بہتر بنانے میں مدد دے گا۔ اب کوئی بھی غیر قانونی نہیں ہو گا۔"

افغانوں کے لیے مواقع

بہت سے افغان جنہیں گرفتاریوں اور ملک بدری کا خوف تھا اس عمل سے خوش ہیں۔

حبیب اللہ، ایک افغان شہری جو پشاور میں پیدا ہوئے لیکن انہوں نے خود کو پاکستان میں قانونی بنانے کے لیے کبھی شناختی کارڈ حاصل نہیں کیا، نے کہا، "یہ عمل ہمیں کم از کم پاکستان میں ہمارے قیام کو قانونی بنانے کے لیے ایک دستاویز مہیا کرے گا اور ہمیں گرفتاری اور ملک بدری سے محفوظ رکھے گا۔"

انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کے بچے قیام کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "میرے بچے تعلیم حاصل کرنا اور ایک بہتر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ ان کے ملک بدر کیے گئے بہت سے رشتہ دار پاسپورٹ اور ویزے حاصل کر کے دوبارہ پشاور میں واپس آ گئے ہیں۔

یونیورسٹی آف پشاور کے ایک طالب علم، سعد خان نے کہا، "رجسٹریشن کا عمل بہت پہلے مکمل کر لینا چاہیئے تھا۔ کسی معتبر دستاویز کے بغیر کوئی کہیں بھی نہیں رہ سکتا۔"

ایک چھوٹی سی اصلاح میں، پاکستان نے افغانستان کے اسکول کے اُن بچوں کو سرحد پار کرنے کے خصوصی کارڈ جاری کیے ہیں جو پاکستان کی خیبر ایجنسی میں نجی اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ ‎

اس سال پاکستان کی جانب سے افغان سرحد پر زیادہ سختی کرنے کی وجہ سے کارڈ ضروری ہو گئے تھے، جس کی وکہ سے ان بچوں کا کلاس میں حاضر ہونا ناممکن ہو گیا تھا۔ ان کی اکثریت نے اسکول میں باقاعدہ حاضری دوبارہ شروع کر دی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500