پشاور – وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) اور خیبر پختونخوا (کے پی) سے طالبان کی پسپائی سے بے خوف اور شادمان محسوس کرنے والے پاکستانیوں نے 14 اگست سے کافی پہلے جشنِ آزادی منانے کا آغاز کر دیا ہے۔
جامعہ پشاور میں مطالعہ پاکستان کے ایک استاد محمّد عبید اللہ نے کہا کہ جشن اور حبّ الوطنی کے مظاہرہ کا اشتیاق بڑے پیمانے پر امن کی واپسی کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے جون 2014 میں شروع ہونے والے آپریشن ضربِ عضب اور پس ازاں گزشتہ فروری کو شروع ہونے والے آپریشن ردّالفساد کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان فارورڈ کو بتایا، ”شورشیوں کے خلاف عسکری مہم سے قبل عسکریت پسند ملک بھر میں فعال تھے اور نتیجتاً عوام جشن منانے کے بجائے گھروں ہی میں رہتے تھے۔“
انہوں نے کہا، ”یہ عوام کی گرمجوشی کا ثبوت ہے کہ جوان اور بوڑھے اپنی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر قومی پرچموں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ وہ شرپسندوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ایک خودمختار ملک میں رہتے ہیں جو کہ پاک فوج [کی کاوشوں کے مرہونِ منّت] عسکریت پسندی سے بحال ہوا ہے۔“
دہشت سے آزادی کا جشن
میران شاہ، شمالی وزیرستان سے ہائی سکول کے ایک طالبِ علم سعود خان نے کہا کہ اس کے آبائی وطن کے باشندے آنے والے جشن پر شادمان ہیں۔
اس نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہمارے لوگ عسکریت پسندی سے پریشان ہیں۔ وہ ان عسکریت پسندوں کے غائب ہونے ہو جانے پر اپنی خوشی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے ان کی زندگیاں ہولناک بنا رکھی تھیں۔“
اس نے کہا، ”عسکریت پسند ہم سے وہ آزادی صلب کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں ہمارے آبا و اجداد کی ان تھک جد و جہد سے ملی۔ وہ ناکام ہوئے۔“
خان نے کہا کہ شمالی وزیرستان اس وقت تک عسکریت پسندوں سے بھرا پڑا تھا جب تک آپریشن ضربِ عضب نے انہیں بے دخل نہیں کر دیا۔
انہوں نے کہا، ”عسکریت پسندوں نے ہمیں یرغمال بنا رکھا تھا۔ ہمیں کوئی آزادی نہ تھی، اور ہمیں طالبان کے ایجنڈا کے مطابق رہنا پڑتا تھا۔“
انہوں نے مزید کہا، ”اب ہم بجا طور پر یومِ آزادی منا رہے ہیں۔“
مقامی باشندے شفقت حسین نے کہا کہ پارہ چنار، کرم ایجنسی کے باشندوں نے محنت سے جشن کی تیاریاں کی ہیں۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہم عسکریت پسندی سے بری طرح متاثرہ ہیں، لیکن ہم دہشتگردی سے بے خوف ہیں اور دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔“
انہوں نے کہا، ”یومِ آزادی کا آنے والا جشن ان کو چیلنج کرے گا جو پارہ چنار کو نسلی یا فرقہ ورانہ سطور پر تقسیم کرنا چاہتے تھے۔
پشاور یومِ آزادی کا سامانِ آرائش فروخت کرنے والی دکانوں کے زوردار کاروبار کے ساتھ رنگوں میں ڈوبا ہوا ہے۔
یونیورسٹی روڈ پر پرچم فروخت کرنے والے محمّد جنید نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہم ان گاہکوں کو قومی پرچم، [پرچموں سے پیراستہ] ٹوپیاں اور بیج فروخت کر رہے ہیں جو یومِ آزادی منانا چاہتے ہیں۔ دن قریب آنے کے ساتھ ساتھ فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے۔“
انہوں نے مزید کہا، ”عام حالات میں ہم صرف سرکاری عمارتوں پر ہی قومی پرچم دیکھتے ہیں، لیکن اب وہ ہر طرف نظر آ رہے ہیں۔“
پاکستان کے مستقبل کا تحفظ
ضلع ٹانک کے ایک رہائشی فاروق شاہ نے بتایا، طویل عرصے کی عسکریت پسندی نے عوام کے عزم کو مضبوط کیا ہے اور اپنے وطن کے دفاع کے لئے عوام متحد ہیں۔
ایسا اتحاد "بڑھتی ہوئی حب الوطنی کی نشانی ہے،" انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ "یہ ہمارے دشمنوں کو واضح پیغام دیتا ہے۔"
"ہم اپنی قوم کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں، انہوں نے بتایا۔ اپنے ملک کی حفاظت کے لئے ہم ہر قربانی دیں گے۔"
بابائے قوم، محمد علی جناح نے "پاکستان کی آزادی کے لئے جدوجہد" کی، انہوں نے بتایا۔ "ہم امن کے لئے کام کرنے اور عسکریت پسندوں کے مذموم عزائم ناکام بنانے کے پابند ہیں۔"
انہوں نے عزم کیا، "ہم اپنے ملک کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش ناکام بنائیں گے، اور ہم اس کی سرحدوں کی حفاظت کریں گے۔"