لاہور -- پاکستان میں منگل (25 جولائی) کو غصے میں اضافہ ہو رہا تھا جب ان 26 افراد کے غم زدہ رشتہ دار جو ایک دن پہلے لاہور میں ہونے والے خودکش حملے میں ہلاک ہوئے تھے، نے اپنے پیاروں کو دفنایا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان حملوں کے منصوبہ سازوں کو سرِعام پھانسی دے۔
کالعدم دہشت گرد گروہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ذرائع ابلاغ کے نام ایک پیغام میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ خودکش بمبار سوات سے آیا تھا۔
مصروف مشرقی شہر میں اہلِ خاندان اور شہریوں نے نمازِ جنازہ میں شرکت کرتے ہوئے اور صوبہ پنجاب کے گورنر میاں شہباز شریف جو کہ وزیراعظم نواز شریف کے بھائی ہیں، کی طرف سے ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کیے جانے کے دوران عملی اقدامات کا مطالبہ کیا۔
دھماکے میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار کے انکل حافظ نصیر الدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ "ہم حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جو لوگ اس واقع میں ملوث تھے اور وہ جو سہولت کار تھے انہیں سرِ عام پھانسی دی جائے"۔
ایک مقامی شہری شیخ رضوان جنہوں نے کچھ متاثرین کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی، مزید کہا کہ "ہم یہاں بہت زیادہ دکھ میں آئے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "یہاں پر گزشتہ روز چھبیس افراد شہید ہوئے ہیں اور میں اپنی حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ براہِ مہربانی ان دہشت گردوں کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ دیں"۔
پیر کو لاہور کے جنوبی حصے میں ایک پرہجوم مرکزی سڑک پر مصروف سبزی منڈی میں زبردست دھماکہ ہوا جس سے قریبی عمارتوں کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔
عینی شاہد امجد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میں اس وقت ایک پل پر تھا جب میں نے زبردست دھماکہ سنا۔ جب میں جگہ پر پہنچا تو میں نے بہت سے لوگوں کو سڑک پر پڑے ہوئے پایا"۔
اس نے زندہ بچ جانے والوں کے بارے میں کہا کہ "ہم ان میں سے کچھ کو ہسپتال لے گئے"۔
پنجاب پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے شعبہ (سی ٹی ڈی) کے ایک ترجمان نے کہا کہ حملے میں ہلاک ہونے والوں میں بہت سے پولیس والے تھے جو فیروز پور روڈ پر غیر قانونی تجاویزات کو ہٹانے کا کام کر رہے تھے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ 54 افراد کو زخموں کے علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔
پولیس نے کہا کہ بمبار کی عمر 16 سے 18 سال کے درمیان تھی اور خودکشی کی جو جیکٹ استعمال کی گئی اس کا وزن 12 کلوگرام تھا اور اس میں بال بیرنگ بھی ڈالے گئے تھے۔
صوبائی وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ کے مطابق، بظاہر پولیس افسران کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
پنجاب سی ٹی ڈی کے پاس درج کروائی جانے والی فرسٹ انفرمیشن رپورٹ کے مطابق "تین دہشت گرد بازار میں داخل ہوئے۔ ان میں سے دو نے تیسرے کو پولیس والوں کی طرف بھیجا"۔
پولیس ان دو سہولت کاروں کی تلاش میں ہے۔
مذمتیں
مذہبی اور سیاسی قیادت نے حملے کی مذمت کی ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے متاثرین کے اہلِ خاندان کے ساتھ دکھ کا اظہار کیا اور فوج کو حکم دیا کہ وہ ریسکیو اور امدادی کوششیں کرے۔ یہ بات انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے بتائی۔
شہباز شریف نے بم دھماکے کو دہشت گردی کا بزدلانہ کام قرار دیا اور عہد کیا کہ وہ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے پولیس کی قربانیوں کو بدلہ لینے کا وعدہ کیا۔
دوسرے راہنماوں نے جن میں صدر ممنون حسین، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، سابقہ صدر آصف علی زرداری، عالم مولانا طاہر القادری اور جمعیت علماء اسلام (فضل) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان شامل ہیں نے اس سفاکی پر اپنے اپنے مذمتی بیانات جاری کیے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دو روزہ سوگ کا اعلان کیا اور اپنی جماعتی سرگرمیوں کو ملتوی کر دیا۔
پاکستان میں انتہاپسندی کے خلاف جاری دس سالہ جنگ میں لاہور اہم عسکری حملوں کا نشانہ بنتا رہا ہے مگر ایسے حملے حالیہ سالوں میں کم باقاعدگی سے پیش آ رہے تھے۔
حالیہ حملے میں اپریل میں ہونے والا خودکش حملہ جس میں مردم شماری کی ٹیم کو نشانہ بنایا گیا تھا اور جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے اور فروری میں ہونے والا بم دھماکہ جس میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے، شامل تھا۔
مارچ 2016 میں ایسٹر سنڈے کو گلشنِ اقبال پارک میں ہونے والے ایک اور خودکش دھماکے میں 70 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
]لاہور سے عبدل ناصر خان نے اس خبر کی تیاری میں حصہ لیا۔[
عمدہ
جوابتبصرے 3
اچھا
جوابتبصرے 3
مجھے ویڈیو دکھائیں
جوابتبصرے 3