رواداری

لنڈی کوتل میں نئی مسیحی کالونی 'امید کا مینارہ نور'

محمد شکیل

خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ خالد محمود (دائیں سے تیسرے) 14 جولائی کو لنڈی کوتل میں ایک نئی مسیحی کالونی کی تختی کی رونمائی کر رہے ہیں۔ ]محمد شکیل[

خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ خالد محمود (دائیں سے تیسرے) 14 جولائی کو لنڈی کوتل میں ایک نئی مسیحی کالونی کی تختی کی رونمائی کر رہے ہیں۔ ]محمد شکیل[

پشاور -- پاکستانی حکام نے لنڈی کوتل میں مسیحی برادری کے لیے ایک نئی رہائشی کالونی بنانے کے لیے سنگِ بنیاد رکھا ہے جس سے خیبر ایجنسی کے اقلیتی گروہ کی طرف سے طویل عرصے سے کیا جانے والا مطالبہ پورا ہو گیا ہے۔

اقلیتی گروہ کو طویل عرصے تک پریشانیوں اور عسکریت پسندوں کے غضب کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر اب وفاق کے زیرِانتظام قبائلی ایجنسیوں (فاٹا) میں سیکورٹی اتنی بہتر ہو گئی ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے جیسے کہ صحت، تعلیم اور رہائش کے منصوبوں کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ یہ بات مقامی حکام نے کہی۔

مسیحی برادری کے لیے رہائشی کالونی کا 14 جولائی کو ہونے والا افتتاح، حکومت کے لیے ایک سنگِ میل کامیابی اور قبائلی علاقوں میں رہنے والی محروم برادریوں کو طاقتور بنانے کے طرف جانے والے راستے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

فائننشل ٹائمز نے 2016 میں تخمینہ لگایا تھا کہ مسیحی پاکستانی آبادی کا تقریبا 1.6 فیصد (2.5 ملین افراد) ہیں۔

ایک نیا آغاز

خیبر ایجنسی کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے شروع ہونے والے ایک نئے آغاز کی امید رکھتے ہیں۔

لنڈی کوتل کے ایک رہائشی، لُنگی ہولڈر اور پاکستان اقلیتی اتحاد (پی ایم اے) کے مرکزی ایگزیکٹیو رکن، ملک ارشاد مسیح نے کہا کہ "بدقسمتی سے فاٹا میں نسلوں سے رہنے والی اقلیتیوں کو املاک خریدنے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ کسی بھی قانون میں انہیں منتقلی-فروخت وثیقہ کرنے کا حق نہیں دیا گیا تھا"۔

لُنگی ہولڈر کا کردار فاٹا کے قبائل اور حکومت میں ڈومیسائلوں، قومی شناختی کارڈوں، پاسپورٹوں اور تعلیمی دستاویزات کے لیے ثالثی کرنے کا ہے۔ جولائی 2015 میں، پہلی بار خیبر ایجنسی کی پولیٹیکل انتظامیہ نے چار غیر مسلمان لُنگی ہولڈروں کو تعینات کیا۔

مسیح نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اقلیتوں کے لیے تکلیف دہ صورت حال کی وجہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل نہ کرنے کی اہلیت تھی جو کہ زمین کی خریداری اور ملکیت کے حقوق کا دعوی کرنے کے لیے لازمی شرط ہے"۔

خیبر ایجنسی کی پولیٹیکل انتظامیہ کے اپریل 2015 میں اقلیتوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے فیصلے نے یہ سب کچھ بدل دیا۔

مسیح نے کہا کہ "پولیٹیکل انتظامیہ کے اقلیتوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے فیصلے نے نہ صرف انہیں قبائلی علاقوں کے رجسٹرڈ شہری بنا دیا ہے بلکہ انہیں املاک خریدنے کے قابل بھی بنا دیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "اب ہم اپنے سماجی-معاشی حالات تبدیل کرنے کے قابل ہو گئے ہیں"۔

ملکیت کا دعوی، برادری کی ترقی

آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے چیرمین ہارون سراب دیال جن کا تعلق پشاور سے ہے، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اقلیتی برادریوں کے ارکان جو پاکستان کے قیام سے اب تک قبائلی علاقوں میں رہے ہیں نے اب اپنے آپ کو حقیقی شہری سمجھنا شروع کر دیا ہے اور انہیں پاکستان کے آئین میں دیے گئے سارے حقوق مل گئے ہیں"۔

نئی مسیحی کالونی کی تعمیر کے متعلق انہوں نے کہا کہ "یہ ایک تاریخی لمحہ ہے کہ خیبر ایجنسی کی اقلیتوں کو، جنہوں نے طویل عرصے سے ان حقوق کا مطالبہ کیا ہے جن سے فاٹا میں رہنے والے مسلمان مستفید ہوتے ہیں، گھر بنانے کے لیے پلاٹ دیے گئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اقلیتیں اب قبائلی علاقوں میں زمین خرید سکتی ہیں مگر حکومت کے زمین کی اصلاحات کو یقینی بنانا چاہیے۔

سراب دیال نے کہا کہ "لنڈی کوتل اور میران شاہ کے کچھ علاقوں میں زمینی اصلاحات کو متعارف کروایا گیا ہے مگر 2,600 کلومیٹر طویل قبائلی پٹی میں رہنے والے 50,000 اقلیتی ارکان کی توقعات اور خواہشات کو اس وقت ہی پورا کیا جا سکتا ہے اگر انہیں فاٹا کے دوسرے شہریوں کے برابر حقوق ملیں"۔

لنڈی کوتل میں مسیحوں کے لیے ایک رہائشی علاقہ پہلے سے موجود ہے مگر یہ خیبر ایجنسی میں پہلا موقع ہے کہ وہ زمین کے مالک بھی بن سکتے ہیں۔

ڈان کے قبائلی صحافی ابراہیم شینواری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "نئی مسیحی کالونی کو 33 ملین روپے (313,000 ڈالر) کے تخمینہ سے آٹھ کنالوں کے ایک پلاٹ (ایک ایکڑ) پر مکمل کیا جائے گا جہاں 21 مکان تعمیر کیے جائیں گے۔ زمین کی قمیت کو حکومت اور مالکان مل کر دیں گے"۔

اکیس ممکنہ مالکان میں سے ہر کوئی اندازاً 350,000 روپے (3,320 ڈالر) ادا کرے گا۔

شینواری نے کہا کہ "لنڈی کوتل میں مسیحی کالونی کا افتتاح اقلیتوں کے لیے مزید آزادی کا راستہ ہموار کرے گا اور ان کی حوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ فاٹا کی ترقی میں ایک تعمیری کردار ادا کریں"۔

بہتر مستقبل کی امید

اقلیتی گروہ جو تقسیم سے پہلے کے وقت سے خیبر ایجنسی میں رہائش پزیر ہیں، پولیٹیکل انتظامیہ کی طرف سے کی جانے والی کوششوں پر شکر گزار ہیں۔ یہ بات پی ایم اے کی خیبر پختونخواہ شاخ کے صوبائی منتظم سیمسن جیکب نے کہی۔

انہوں نے کہا کہ مسیحی کالونی کی تعمیر اقلیتوں کو حقوق دینے کی طرف ایک قدم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے مستقبل میں اقلیتوں کو بہتر امکانات دینے کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی اور انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم ملے گا جہاں سے وہ برابری کے ماحول میں اپنے مفادات کو حاصل کر سکتے ہیں"۔

سیمسن نے کہا کہ یہ کالونی "ہمارے بہتر مستقبل کے لیے ایک "امید کا مینارہ نور" ہے۔

انہوں نے کہا کہ "حیثیت کی مساوات اور اقلیتی برادری کے جائز حقوق کی فراہمی ہمارے دیرینا مطالبات میں سے تھے اور سب سے اہم بھی۔ ہم خیبر ایجنسی کے رجسٹرڈ شہری بننے کے بعد، اپنے سماجی مقام میں ایک مثبت تبدیلی کی توقع کر رہے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500