سلامتی

پاکستان نے پولیس، سیکورٹی فورسز کے لیے بجٹ بڑھا دیا

اشفاق یوسف زئی

پاکستانی فوج کا ایک سپاہی، 24 جون کو پشاور کے مضافات میں عسکریت پسندوں کی تلاش کے دوران چوکنا کھڑا ہے۔ پاکستان نے سیکورٹی فورسز اور پولیس کے لیے اپنے بجٹ میں اضافہ کر دیا ہے۔ ]عبدل مجید /اے ایف پی[

پاکستانی فوج کا ایک سپاہی، 24 جون کو پشاور کے مضافات میں عسکریت پسندوں کی تلاش کے دوران چوکنا کھڑا ہے۔ پاکستان نے سیکورٹی فورسز اور پولیس کے لیے اپنے بجٹ میں اضافہ کر دیا ہے۔ ]عبدل مجید /اے ایف پی[

پشاور -- تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بجٹ میں متعین رقم میں اضافہ کرنے سے دیرپا امن کے لیے ایک ماحول پیدا ہو گا۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے فوجی اور دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ چاروں صوبوں نے امن و امان کو مضبوط بنانے اور دہشت گردی کی لعنت کا موثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے بجٹ میں مختص رقم میں اضافہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سال فوج کے لیے مختص رقم 92 بلین روپے (877 ملین ڈالر) ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اضافے سے پاکستانی فورسز کی طاقت میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستانی فوج سارے صوبوں میں عسکریت پسندوں سے موثر طور پر جنگ کر رہی ہے کیونکہ حکومت اس کی مالی ضروریات کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ صرف اچھے وسائل رکھنے والی فوج ہی دہشت گردی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے"۔

بجٹ میں اضافہ امن کے لیے ضروری ہے

وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے سابقہ سیکورٹی سیکریٹری برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ، جن کا تعلق پشاور سے ہے، نے کہا کہ بجٹ میں اضافے کا مطلب ہے کہ سیکورٹی فورسز شورش پسندوں کی طرف سے پیش کردہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر سامان اور تربیت حاصل کر سکیں گی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس سے صوبائی اور اس کے ساتھ ہی وفاقی حکومت کی طرف سے پولیس، ان کی تربیت اور تنخواہوں کو مضبوط بنانے کے لیے سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ پولیس، فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کے لیے بجٹ میں اضافہ کرنا نہایت ضروری ہے اگر حکومت باقی شدہ دہشت گردی کو آخری دھکا دینا اور امن اور ترقی کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔

شاہ نے کہا کہ "حکومت کو احساس ہو گیا ہے کہ عسکریت پسند بھاگ رہے ہیں اور وہ سیکورٹی فورسز کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے۔ مگر حکومت کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی اور عسکریت پسندوں کو واپسی کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتی"۔

کے پی کے وزیرِ خزانہ مظفر نے کہا کہ خیبر پختونخواہ (کے پی) جو کہ دہشت گردی کا ایک گڑھ تھا، نے گزشتہ دو سالوں کے دوران بہت زیادہ بہتری دکھائی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہماری حکومت اولین ترجیح صوبے میں امن و امان کو دیتی ہے کیونکہ سیکورٹی میں بہتری سے ہی پرامن ماحول کو یقینی بنایا جا سکتا ہے"۔

انہوں نے سات جون کو صوبائی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ 18-2017 کے مالی سال میں، ہم نے پولیس کے ڈپارٹمنٹ کے لیے 3.9 بلین روپے (37.8 ملین ڈالر) مختص کیے ہیں جو کہ گزشتہ سال سے 21 فیصد زیادہ ہے اور اس سے صوبے میں امن و امان کی صورت حال مزید بہتر ہو گی"۔

انہوں نے کہا کہ پولیس فورس کو مزید بااختیار بنانے سے حکومت طالبان کے عسکریت پسندوں کو مستقل طور پر شکست دینے کا عزم رکھتی ہے۔

سندھ، پنجاب اور بلوچستان صوبوں نے بھی امن و امان کے نفاذ کے لیے 10 سے 15 فیصد اضافی رقم مختص کی ہے۔

سندھ کے وزیراعلی سید مراد علی شاہ نے جون میں اپنی صوبائی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس سال، ہم اپنی ٹیکنالوجی کو بہتر بنا رہے ہیں تاکہ ہم دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو پتہ لگانے کے قابل ہو سکیں۔ پولیس کو انتہائی جدید آلات مہیا کیے جائیں گے اور صوبے کے دہشت گردی کے شکار علاقوں میں انتہائی حساس کیمرے نصب کیے جائیں گے"۔

عسکریت پسند انتہائی سیکورٹی سے کمزور

کے پی کے وزیرِ اطلاعات شاہ فرمان نے کہا کہ کے پی کی حکومت سیکورٹی فورسز کی ضروریات سے آگاہ ہے خصوصی طور پر وہ جو کہ فاٹا کے قریب تعینات ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم، فوج کے تعاون کے ساتھ، دہشت گردی سے زیادہ قوت کے ساتھ جنگ کریں گے اور چند ہی ماہ میں، دہشت گردی غائب ہو جائے گی"۔

انہوں نے کہا کہ "جب ہم نے چار سال پہلے کے پی میں حکومت سنبھالی تھی تو دہشت گردی عروج پر تھی اور بم دھماکے اور خودکش حملے ہر روز کا واقعہ تھے۔ اب دہشت گردی کے چھوٹے موٹے واقعات ہی ہوتے ہیں مگر ہم ایسے واقعات کو عطا شدہ نہیں سمجھ سکتے"۔

انہوں نے کہا کہ "چھوٹے پیمانے پر دہشت گردی کے واقعات کے ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شورش پھیلانے والے ابھی بھی ہمارے اردگرد موجود ہیں اور ہمیں انہیں بڑے حملے کرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف اقدامات میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ "یہ پولیس کی طرف ہماری مکمل توجہ ہی ہے جس سے دہشت گردی میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔ وہ دن گزر گئے جب عسکریت پسندوں کے مختلف گروہ لوگوں، بازاروں، اسکولوں اور ہسپتالوں پر حملے کرتے تھے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہماری پولیس مکمل طور پر پیشہ ورانہ ہو گئی ہے اور شورش پسند اب اس کا سامنا نہیں کر سکتے"۔

طالبان کو کونے میں لگا دیا گیا

پشاور سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ پولیس افسر ہدایت الرحمان نے سیکورٹی کے بارے میں حکومت کی توجہ کی تعریف کی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پولیس اور سیکورٹی فورسز کو جدید ترین ٹیکنالوجی، ہتھیاروں اور دفاعی سامان سے لیس کرنے کا ثمر گزشتہ چند سالوں میں حاصل ہو چکا ہے۔ اب وہ مکمل طور پر دہشت گردوں سے جنگ کرنے کے قابل ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ انٹیلیجنس کو اکٹھا کرنا زیادہ موثر ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ان اقدامات کا نتیجہ مجموعی طور پر امن و امان کی بہتر صورتِ حال کی شکل میں نکلا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "عسکریت پسند اب اتنی آزادی سے کام نہیں کر سکتے جتنا کہ وہ کچھ سال پہلے کر سکتے تھے۔ انہیں پولیس کی طرف سے بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا ہے کیونکہ دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے پولیس کو زیادہ بہتر بنایا گیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے طالبان نے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں کیں مگر اب وہ اکا دکا واقعات ہی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کو مزید وسائل دینے سے دہشت گرد مزید کونے میں لگ جائیں گے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 14

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Me firs time red kr raha h bhat wazeh likhty h v nice

جواب

مجھے پاک فوج سے پیار ہے

جواب

سب اچھا ہے۔

جواب

مجھے پاک فوج اور پولیس پسند ہیں۔

جواب

مجھے پاک فوج اور پولیس پسند ہے

جواب

Yes I like this article. Pak army zindabad. Ma bhe Pakistan army may shamil hona chati hon

جواب

مجھے پاکستان پولیس سے پیار ہے

جواب

مجھے پولیس کی ملازمت پسند ہے

جواب

مجھے اس ملازمت کی ضرورت ہے کیوں کہ میں فوج میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ مجھے اپنے ملک سے پیار ہے۔

جواب

سڑکیں مجھے ہمیشہ سے لبھاتی ہیں مجھے سڑکوں سے پیار ہے۔۔ میں این ایچ ایم پی میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔۔ میں جلد ہی اپنا ایم بی بی ایس مکمل کر لوں گا۔۔۔ انشا اللہ۔ سوال یہ ہے کہ میں این ایچ ایم پی میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔۔ کیا ہائی وے پولیس میں ڈاکٹروں کے لیے ملازمت کے مواقع ہیں؟؟؟

جواب

Yes I like this article because I love pak army Hmain chahiya ka hm pak army ka sath dain or jaga par in ki qurbanion ka itraf krain q ka Pakistan army hi wahid army ha Jo dunya ki kisi bji fog ko shikast da skti ha hmain apny fogi bhaiyon ki izzat krni chahiya

جواب

بہت اچھے

جواب

اب میں کسی بھی سرکاری ملازمت سے متعلق نہایت پریشان ہوں۔

جواب

میں نے فیڈرل بورڈ اے پی ایس سکول کراچی سے سے اے گریڈ میں میٹرک کیا اور ایف جی ایل سی ڈی راولپنڈی سے پریمیڈیکل سال دوئم پڑھا، اب میں سالِ دوئم کے نتیجہ کا منتظر ہوں، میں پولیس میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔

جواب