دہشتگردی

دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے سندھ سیکیورٹی اہلکار جامعات کے ساتھ کام کریں گے

ضیاء الرّحمٰن

سندھ پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے عہدیداران نے 12 جولائی کو کراچی میں صوبے کی 40 جامعات کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ شرکاء نے جامعہ کے طالبِ علموں کے مابین عسکریت پسندی سے لڑنے کے طریقوں پر بات چیت کی۔ [ضیاء الرّحمٰن]

سندھ پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے عہدیداران نے 12 جولائی کو کراچی میں صوبے کی 40 جامعات کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ شرکاء نے جامعہ کے طالبِ علموں کے مابین عسکریت پسندی سے لڑنے کے طریقوں پر بات چیت کی۔ [ضیاء الرّحمٰن]

کراچی — تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے نوجوانوں کے مابین عسکریت پسندی سے متعلق فکرمند، نفاذِ قانون کی ایجنسیوں نے صوبہ سندھ میں اس امر پر مدد حاصل کرنے کے لیے جامعہ عہدیداران کے ساتھ کام کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔

بدھ (12 جولائی) کو صوبے کی نجی اور سرکاری، ہر دو 40 جامعات کے وائس چانسلرز اور نمائندگان نے کیمپسز میں عسکریت پسندی کے ممکنہ پھیلاؤ اور اس کی انسداد کے طریقوں سے متعلق بات چیت کرنے کی غرض سے صوبائی پولیس ہیڈ کوارٹرز میں شعبۂ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے حکام سے ملاقات کی۔

سی ٹی ڈی سربراہ ثناء اللہ عبّاسی کی صدارت میں اجلاس کے شرکاء نے تعلیمی اداروں میں شدّت پسندی کی بیخ کنی کے لیے ایک مربوط اور مستحکم پالیسی پر اتفاق کیا اور جامعات اور نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کے درمیان ایک مشترکہ حکمتِ عملی کا مطالبہ کیا۔

تعلیم یافتہ نوجوان عسکریت پسندوں کی نگاہ میں

صوبے میں جاری کریک ڈاؤنز میں طالبان نیٹ ورک کو منتشر کرنے کے بعد نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کو ایک نو ظہورپذیر آفت — تخریبی سرگرمیوں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ملوث ہونے— کا سامنا ہے۔

سی ٹی ڈی کے ایک اعلیٰ عہدیدار عمر شاہد حامد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”گرفتار شدہ عسکریت پسندوں سے تفتیش سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہ ملک کی ممتاز جامعات میں فعال ہیں۔ یہی وجہ سے کہ ہم نے اس خوفناک خدشہ کی انسداد کے لیے جامعات کے عہدیداران کے ساتھ اجلاس منعقد کیا۔“

اجلاس میں سی ٹی ڈی افسران نے انتہا پسند بن جانے اور دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث ہو جانے کے بعد حال ہی میں گرفتار ہونے والے دو طالبِ علموں سعد عزیز اور نورین لغاری کے کیس پر بات چیت کی۔

عزیز کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے فارغ التحصیل تھا۔ اس نے ”دولتِ اسلامیۂ عراق و شام“ (داعش) سے متاثر ہو کر ایک مقامی گروہ میں شمولیت اختیار کی۔

27 سالہ عزیز نے مئی 2015 میں صفورہ گوٹھ کے علاقہ میں اسماعیلی برادری کے تقریباً 45 سے زائد ارکان کو قتل کرنے اور اپریل 2015 میں حقوقِ انسانی کی ایک فعالیت پسند اور سماجی کارکن سبین محمود کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔

ایک عدالت نے مئی 2016 میں اسے سزائے موت سنائی۔ وہ تب سے زیرِ حراست ہے۔

ضلع جامشورو کی لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کی 20 سالہ طالبہ، لغاری کو اپریل میں لاہور میں نفاذِ قانون کے اہلکاروں کے ساتھ ایک مقابلہ کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

مقامی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو کے مطابق لغاری نے ایسٹر کے دوران ایک چرچ پر خودکش حملہ کرنے کی نیت سے لاہور جانے کا اعتراف کیا۔

خوش قسمتی سے سیکیورٹی فورسز نے اس گھر پر چھاپہ مارا جہاں وہ اور اس کے ساتھی قیام پذیر تھے، اور دہشتگرد علی طارق کو ہلاک کرتے ہوئے حملے کو روک دیا۔

لغاری، جسے حکام کے مطابق دھوکہ دیا گیا تھا، کو حراست سے رہا کر دیا گیا۔ اس نے 8 مئی کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے داعش بھرتی کنندگان کا شکار بنی .

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ انہیں امّید ہے کہ لغاری کا تجربہ دیگر کے لیے ایک سبق ہو گا۔ انہوں نے 10 مئی کو کہا، ”اس طریقہ سے نوجوان نسل اور والدین کے ساتھ ساتھ اداروں میں بھی آگاہی پیدا ہو گی۔“

ایک تشویش ناک رجحان

تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ بدھ کو پیش کیے جانے والے کیسز ایک رجحان کی عکاسی کر تے ہیں۔

اسلام آباد میں قائم دفاعی تھنک ٹینک، پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ،محمد عامر رانا نے کہا ہے کہ عالمی دہشت گرد نیٹ ورکس سے وابستہ انتہا پسند عناصر دولت مند نوجوانوں کی بھرتی کے لیے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

رانا نے بنیاد پرست طلبہ کے بارے میں پاکستان فارورڈ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، "یہ خود ساختہ بنیاد پرست افراد ہیں جو عسکری نظریات سے متاثر ہیں اور رسمی طور پر کسی مقامی یا عالمی عسکریت پسند نیٹ ورک سے وابستہ نہیں ہیں۔"

جامعہ کے نمائندگان نے اپنے ان نظریات کے بارے میں بھی گفتگو کی جو کیمپس میں عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے متعلق ہیں اور انھوں نے رجحان کو روکنے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔

متعدد جامعات پہلے ہی عسکریت پسندی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھا چکی ہیں۔

مثال کے طور پر شہید بے نظیر آباد ڈسٹرکٹ میں شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر دسمبر 2014 کے حملے ، جس میں 140 سے زائد بچے اور اساتذہ جاں بہ حق ہوگئے تھے کے بعد نگراں ٹیم قائم کی۔

جامعہ کے فنانس ڈائریکٹر روشن علی سیال نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "[نگراں] ٹیم نے طلبہ میں انتہا پسند رجحانات کا تجزیہ کیا ہےاور اگر وہ کسی طالب علم میں اجنبی رویے کی نشانی پاتےہیں تو والدین سے رابطہ کرتے ہیں۔"

جامعہ کے بعض حکام نے کہا کہ تاہم عملے کو ممکنہ انتہا پسندانہ رجحانات کی شناخت میں مدد دینے کے لیے مزید تربیت کی ضرورت ہے۔

کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی فیکلٹی کے ڈین، محمد طفیل نے کہا کہ اساتذہ اور عملہ عسکریت پسندی سے بچاؤ کے حوالے سے تربیت یافتہ نہیں ہیں۔

انھوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "لیکن ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ تعلیمی اداروں میں انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے حکمت عملی ترتیب دی جا سکے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Gnb ala

جواب