پاکستانیوں کا ایک طبقہ، جو سیاستدانوں سے لے کر تعلیم دانوں تک وسیع ہے، اس قانون کو خطے کو مستحکم کرنے اور دہشت گردی پر قابو پانے کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھتا ہے۔
کے پی حکومت نے اپریل میں ایک حکم جاری کیا تھا جو تمام مدارس سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ خود کو کالعدم انتہاپسند تنظیموں سے الگ کریں اور اپنے نصاب میں جدید تعلیمی مضامین متعارف کروائیں۔
تقاضوں میں مدارس کو اپنے ذرائع آمدن بتانے اور ایک سالانہ احتسابی رپورٹ حکام کو جمع کروانے کے لیے مجبور کرنا بھی شامل ہے۔
حکم کی تعمیل نہ کرنے والے مدارس کے لیے جرمانہ 600،000 روپے (5،663 امریکی ڈالر) اور/یا چھ ماہ سزائے قید ہے۔
حکام نے ہدایات دی ہیں کہ مدارس ایک حلف نامہ جمع کروائیں، جس میں وہ تصدیق کریں کہ ان کی حدود میں کوئی بھی عسکریت پسندی کی حامی، ریاست مخالف تعلیمات نہیں دی جا رہی ہیں اور یہ کہ وہ نئے تعلیمی معیارات کی تعمیل کر رہے ہیں۔
'مذہبی منافرت' کے خلاف سخت کارروائی
سنہ 2016-2015 کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان مدارس سے بھرا پڑا ہے۔
اس عرصے کے دوران، حکومت کو پورے ملک میں 35،337 رجسٹرڈ اور 8،249 غیر رجسٹرڈ مدارس ملے۔
غیر رجسٹرڈ مدارس کی تعداد کے پی میں کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ ہے، جو کہ 4،135 ہے۔ بلوچستان میں سب سے زیادہ رجسٹرڈ مدارس ہیں، جو کہ تقریباً 13،000 ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ کے پی پرویز خٹک نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ نئے حکم کا مقصد کے پی میں تمام مدارس کو ایک واحد محکمے کے ماتحت کرنا ہے۔ "صوبے میں بہت سے مدارس غیر رجسٹرڈ ہیں ۔۔۔ اور انہیں منضبط کرنے کے لیے کوئی کاغذی قوانین موجود نہیں تھے۔"
"بہت سے مدارس کے منتظمین یہ کرنے پر رضامند ہیں،" کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر مدارس اپنے اسلامی نصاب کے ساتھ جدید مضامین کو شامل کر لیں تو یہ انسانیت کی بہت عظیم خدمت ہو گی۔
پشاور کی مقامی ایک سول سوسائٹی کی تنظیم بلیو وینز کے سی ای او، قمر نسیم نے کہا کہ یہ سخت کارروائی بہت پہلے ہو جانی چاہیئے تھے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "مدارس میں آنے والے بغیر نگرانی کے چندوں کے سیلاب کا لازماً مناسب ریکارڈ ہونا چاہیئے، تاکہ یہ سرمایہ کسی بھی انتہاپسندانہ سرگرمی کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے،" انہوں نے مزید کہا کہ قانون "اعلیٰ تعلیمی معیارات بنانے اور نصاب کو غیر متعصب بنانے میں مدد کرے گا۔"
انہوں نے کہا، "دینی منافرت کو فروغ دینے والے مدارس کے خلاف کارروائی کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔"
اصلاح کے لیے مزید تجاویز
نسیم جیسے مبصرین کے پاس اس بارے میں مزید تجاویز ہیں کہ مدارس میں تعصب پسندی کے خلاف لڑنے کے لیے کیا کیا جائے۔
انہوں نے کہا، "حکومت کو، مدارس بورڈ کے ساتھ مشاورت کر کے، ایک حکمتِ عملی بنانی چاہیئے تاکہ مختلف فرقوں کے مدارس کے درمیان باہمی تعامل کو منضبط کیا جائے۔"
اسلام آباد کی مقامی ایک امن کی حامی تنظیم، پیمان ایلومنی ٹرسٹ کی چیئروومن، مسرت قدیم نے کہا، "مدارس میں اصلاحات سمندر میں ایک قطرے کے برابر ہے۔"
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہمیں مدارس کے اساتذہ کو تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے جو رواداری سکھا سکتے ہوں اور انتہاپسندی کو رد کرنے کی تعلیم دے سکتے ہوں۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت آگے بڑھ کر مدارس کی فنڈنگ کو منضبط کر سکتی ہے، لیکن "لیکن اگر ریاست امن کو بحال کرنا چاہتی ہے تو اسے ۔۔۔ مجموعی طور پر معاشرے کو تعلیم دینا ہو گی۔"
لاہور کی مقامی حقوقِ نسواں کی این جی او شرکت گاہ کی کے پی میں صوبائی سربراہ، ثناء اعجاز نے کہا کہ کے پی، جس نے دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے، کو تمام سطحات پر تمام اسکولوں کے اندر تدریس اور ان کی فنڈنگ کی نگرانی کے لیے ایک نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ مدارس میں جدید مضامین کو لازمی بنانا شاگردوں کو اسلامی نظریئے اور تاریخ کے تنگ نظر نصاب کی بجائے روزمرہ کی زندگی کی بصیرت دے گا۔
امن، رواداری کا فروغ
پشاور میں اقلیتی حقوق کے ایک کارکن، ردیش ٹونی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ مدارس کے اندر نفرت انگیز تقریر کو روکنا "دین کے حقیقی تشخص کو ابھارے گا اور فرقہ وارانہ اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دے گا۔"
انہوں نے کہا، "مذہبی عدم برداشت نے ۔۔۔ ہمیشہ نفرت کو فروغ دیا ہے اور فساد اور خون خرابے پر منتج ہوئی ہے۔"
اس معاملے میں حکومت کی شمولیت کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون یہ یقینی بنانے میں مدد کرے گا کہ مدارس ایسی سرگرمی کو کچلیں اور "امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم کا کام کرے گا۔"
انہوں نے کہا، "اپنے نصاب میں سے نفرت انگیز مواد کو نکالنے اور ایک پُرامن پاکستان بنانے کے لیے مدارس کو حکومت کی مدد کی ضرورت ہے۔"
Haryana bala peshawar
جوابتبصرے 1