سلامتی

ملٹری اور پولیس آپریشنز کے ذریعے خیبر پختونخواہ کی سیکیورٹی میں بہتری

جاوید خان

9 فروری کو ضلع صوابی، کے پی میں ایک سکول میں پولیس اورخیبر پختونخوا (کے پی) محکمۂ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کمانڈوز ایک سیکیورٹی مشق کر رہے ہیں۔ پولیس کی مستعدی کی پڑتال اور حقیقی حملے کی صورت میں ردِّ عمل دینے کے لیے عوام کو حسّاس بنانے کے لیے پولیس اور سی ٹی ڈی متعدد عوامی مقامات پر مشقیں کر رہے ہیں۔ [جاوید خان]

9 فروری کو ضلع صوابی، کے پی میں ایک سکول میں پولیس اورخیبر پختونخوا (کے پی) محکمۂ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کمانڈوز ایک سیکیورٹی مشق کر رہے ہیں۔ پولیس کی مستعدی کی پڑتال اور حقیقی حملے کی صورت میں ردِّ عمل دینے کے لیے عوام کو حسّاس بنانے کے لیے پولیس اور سی ٹی ڈی متعدد عوامی مقامات پر مشقیں کر رہے ہیں۔ [جاوید خان]

پشاور — پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سال کی پہلی ششماہی میں خیبر پختونخوا (کے پی) میں امنِ عامّہ کی صورتِ حال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔

وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں فوج اور نیم فوجی فورسز کے عسکری آپریشنز کے ساتھ ساتھ، کے پی پولیس اور محکمۂ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) صوبے بھر میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز کے ذریعے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

سی ٹی ڈی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل مبارک زیب نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پولیس اور سی ٹی ڈی نے کے پی، جہاں سالِ رواں کے دوران امنِ عامہ کی صورتِ حال مزید بہتر ہو گئی ہے، میں بحالیٔ امن میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔“

دہشتگردانہ حملوں میں کمی

پولیس کے مطابق، یکم جنوری سے 30 جون تک کے پی میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات (آئی ای ڈیز) کے 18 دھماکوں کی اطلاع ملی۔

یہ اعداد 2016 کی پہلی ششماہی، جب 34 آئی ای ڈی دھماکوں کی اطلاع ملی، اور 2015 کے اسی عرصہ (ایسے 55 دھماکے) کے موازنہ میں ایک نمایاں کمی کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہ اعداد ظاہر کرتے ہیں کہ 2016 کی پہلی ششماہی کے موازنہ میں 2017 کے اسی عرصہ کے دوران آئی ڈی ایز کے علاوہ دیگر دہشتگردانہ حملوں میں 42 فیصد کمی آئی۔

رپورٹ کے مطابق، رواں برس اب تک کل 57 ”دہشتگردی کے واقعات/حملے“ رپورٹ کیے گئے، جبکہ گزشتہ برس کی پہلی ششماہی میں ایسے 99 اور 2015 کے اسی حصّے میں 98 حملے ہوئے۔

مزید برآں سلامتی کی صورتِ حال میں بہتری کا مزید ثبوت ہے کہ رواں برس کے پی میں اب تک گاڑی سے کوئی آئی ڈی ای، راکٹ یا میزائل حملہ نہیں ہوا۔

زیب نے کہا، ”یکم جنوری اور 30 اپریل کے درمیان کے پی میں دستی بم کے چار حملے رپورٹ کیے گئے، مقابلتاً گزشتہ برس 11، 2015 میں 14 اور 2014 میں ایسے 27 حملے ہوئے۔“

زیب کے مطابق، 2017 کے پہلے چار ماہ کے دوران کے پی میں حکام نے گولیاں چلنے کے دہشتگردی سے متعلقہ 24 واقعات ریکارڈ کیے، جن کے مقابلہ میں 2016 کے اسی عرصہ میں ایسے 35، 2015 میں 31 اور 2014 میں 47 واقعات پیش آئے۔

پولیس کی جانب سے انسدادِ دہشتگردی کی کاروائیوں کی شرحِ رفتار میں اضافے کا حکم

کے پی کے انسپکٹرجنرل پولیس صلاح الدّین خان محسود کو اپریل کے اواخر میں صوبے میں سیکیورٹی صورتِ حال اور انسدادِ دہشتگردی کے آپریشنز سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

محسود نے کہا کہ وہ سی ٹی ڈی اور پولیس کی کاوشوں کو سراہتے ہیں اور انہوں نے پولیس کمانڈرز کو دہشتگرد نیٹ ورکس کے خلاف کاروائیاں تیز کرنے کی ہدایات دیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”فورس کے تمام سینیئر اور جونیئر افسران کو انٹیلی جنس پر مبنی کاروائیوں میں اضافہ کے احکامات ہیں۔“

انہوں نے جنوری 2015 سے نافذ العمل ایک انسدادِ دہشتگردی کی حکمتِ عملی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ” قومی ایکشن پلان [این اے پی] کے تحت صوبے بھر میں آپریشنز کیے جا رہے ہیں تاکہ کسی دہشتگرد کو یہاں پناہ نہ مل سکے۔“

پولیس اصلاحات کی وجہ سے امنِ عامّہ کو فائدہ

سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فاٹا میں کامیاب ملٹری آپریشنز اور مستحکم کے پی پولیس کے اختلاط نے امنِ عامہ میں بہتری لانے میں مدد کی ہے۔

محسود کے پیش نشین کے پی پولیس کے سابق سربراہ ناصر خان درّانی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”کے پی میں امنِ عامہ کی صورتِ حال میں بہتری کا ایک بڑا عنصر پولیس اصلاحات کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی پیشہ ورانہ خصوصیّت اور قابلیّت ہے۔“

انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران کے پی پولیس نے بنا کسی امتیاز، خوف یا طرفداری کے نفاذِ قانون کیا ہے۔

درانی نے بتایا، "فورس کے انتظامی اور آپریشنل معاملات میں سیاست دانوں کے [دباؤ] سے آزادی حاصل کرنے کے بعد امن بحال رکھنے میں پولیس بہترین طور سے کام کررہی ہے۔"

انہوں نے بتایا، کے پی پولیس اور سی ٹی ڈی نے امن قائم کرنے میں نہ صرف صوبے بلکہ ملک بھر میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے کرائم رپورٹر قیصر خان نے درانی سے اتفاق کرتے ہوئے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ملٹری ایکشن، بارڈر مینیجمنٹ سسٹم کی تنصیب اور خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کی جانے والی پولیس اور سی ٹی ڈی کی کارروائیوں نے کے پی اور پاکستان بھر میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنایا ہے۔"

مقامی پولیس کا سیکورٹی میں اضافہ

کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر پشاور محمد طاہر نے بتایا، مقامی پولیس نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لانے میں کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "[این اے پی] کے تحت سال کے پہلے چار مہینوں میں پشاور میں تلاشی اور چھاپوں کی 274 کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔"

انہوں نے بتایا، ان کارروائیوں کے دوران پولیس نے 874 اشتہاری مجرموں اور مزید5,000 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا۔

طاہر نے بتایا، "پولیس نے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور دیگر حساس عمارات کو ان کی سیکورٹی بہتر بنانے کی ہدایت دی، اور معقول سیکورٹی کا انتظام نہ کرنے والے ایسے 286 مقامات کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔"

انہوں نے بتایا، پولیس نے اس سال مختلف کارروائیوں میں بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد اور گولہ بارود برآمد کیا ہے.

طاہر نے بتایا، "8 مئی کو ایک تنہا کارروائی میں، پولیس نے پشاور میں حسن آباد گاؤں سے 170، 12.7 ملی میٹر طیارہ شکن گولیاں، 10 مارٹر گولے اور 19 راکٹ برآمد کیے. "

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

شاندار ایپ

جواب