دہشتگردی

کھلونا بم سے جاںبحق ہونے والے بچے پاکستانیوں کو عسکریت پسندوں کی سفّاکی یاد دلاتے ہیں

اشفاق یوسفزئی اور اے ایف پی

27 اپریل 2005 کو کراچی میں پولیس کے چھاپے کے بعد ایک پاکستانی بم ڈسپوزل اہلکار ایک کھلونا کار کا معائنہ کر رہا ہے۔ پولیس نے دو عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا اور ایسے درجنوں کھلونے ضبط کیے جن کا فریبی پھندے کے طور پر استعمال کیے جانے کا اندیشہ تھا۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

27 اپریل 2005 کو کراچی میں پولیس کے چھاپے کے بعد ایک پاکستانی بم ڈسپوزل اہلکار ایک کھلونا کار کا معائنہ کر رہا ہے۔ پولیس نے دو عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا اور ایسے درجنوں کھلونے ضبط کیے جن کا فریبی پھندے کے طور پر استعمال کیے جانے کا اندیشہ تھا۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

پشاور — اے ایف پی کے مطابق، حکام نے کہا کہ اتوار (25 جون) کو افغانستان کے ساتھ سرحدی قبائلی علاقہ میں ایک کھلونا بم سے چھ لڑکے جاںبحق ہو گئے۔

سپین مارک گاؤں، جنوبی وزیرستان میں بچے بم سے کھیل رہے تھے کہ وہ پھٹ گیا۔

ایک مقامی حکومتی عہدیدار نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی عمر ”6 تا 12 برس“ تھی، انہوں نے مزید کہا کہ دو دیگر بچے شدید زخمی تھے۔

شہریوں کو شکار بنانے کی حکمتِ عملی

بطورِ خاص شمال مغربی پاکستان میں درجنوں بچے ماضی میں ان ”کھلونوں“ سے کھیلتے ہوئے اپنی زندگیاں کھو چکے ہیں، جو بعد میں دھماکہ خیز آلات نکلے .

فروری میں ضلع بونیر، خیبرپختونخوا (کے پی) میں ایک کھلونا بم سے دو چرواہے بھائی جاںبحق ہوئے اور ان کی کزن لڑکی زخمی ہوئی۔

لڑکوں کی عمر 15 اور 18 برس تھی؛ ان کی کزن اس وقت سات برس کی تھی۔

اپریل 2009 میں 13 بچے اس وقت جاںبحق ہو گئے جب انہوں نے لوئر دیر، کے پی میں لڑکیوں کے ایک پرائمری سکول کے باہر ایک بم کو غلطی سے کھلونا سمجھ لیا۔

ضلع بونیر کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) محمود ہمدانی، جو خود گزشتہ اگست ایک بم حملے میں محفوظ رہے، نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2016 میں کھلونوں یا برقی آلات (جن کا مقصد مفت اشیاء تلاش کرنے والے بالغوں کو راغب کرنا ہوتا ہے) میں چھپائے گئے متعدد بموں سے ضلع بونیر کے ایک درجن سے زائد باشندے جاںبحق ہوئے۔

ہمدانی نے کہا کہ بونیر میں بڑی تعداد میں عسکریت پسند ہوا کرتے تھے، لیکن سیکیورٹی فورسز نے 2010 میں انہیں نکال باہر کیا۔ جب افواج نے انہیں میدانِ جنگ میں شکست دے دی تو فریبی پھندے ان کی ”لڑائی“ کا طریقِ کار ہیں۔

بونیر سے تعلق رکھنے والے ایک دکاندار محمّد یوسف نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اپنی دشمنی کا مظاہرہ کرنے کے لیے شہریوں کو قتل کرنے کے لیے بدنام ہیں۔

بڑھتی ہوئی آگاہی اور نفرت

یوسف نے کہا، ”آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ لاوارث سامان یا دیگر اشیاء دیکھ کر پولیس کو بلاتے ہیں۔“

انہوں نے کہا کئی مرتبہ خطرے سے آگاہ بچوں نے ترغیب آمیز دکھائی دینے والے ”کھلونوں“ کو اٹھانے کے بجائے پولیس کو بلایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام تر معاشرہ طالبان کی شہریوں کے قتل کی بزدلانہ حکمتِ عملی کے خلاف متحد ہو رہا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ مساجد کے امام نمازیوں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ کوئی مشکوک شئے ملنے پر پولیس سے رابطہ کریں۔

بونیر کے پولیس اہلکار محمّد جاوید نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”طالبان کے لوگوں کو خوفناک طریقوں سے قتل کرنے کے بعد ان چند شہریوں میں بھی ان کے خلاف نفرت پیدا ہو گئی ہے جو ان کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔“

ڈی پی او ہمدانی نے یقین دہانی کرائی کہ زیادہ متنبّہ عوام فریبی پھندوں کے خدشہ سے کم زد پذیر ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا، 2016 میں ”ہم نے ایسے 50 سے زائد سانحات کو ہونے سے روک لیا کیوں کہ ہمیں عوام سے بروقت معلومات مل گئیں۔“

انہوں نے کہا کہ ابھی عوام کو آگاہ کرنے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے، انہوں نے مزید کہا، ”ہم ۔۔۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے نصب کیے گئے ان شیطانی بموں سے متعلق عوام کی آگاہی میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔“

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کے پاس ”بموں کی تشخیص کرنے اور انہیں ناکارہ بنانے کے لیے ۔۔۔ جدید ترین آلات ہیں۔“

بونیر کے دسویں جماعت کے طالبِ علم معین شاہ نے اپنے ہی دوستوں اور ہم جماعتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سکول کے بچے نوجوان پاکستانیوں کو قتل کرنے کی وجہ سے عسکریت پسندوں پر شدید غضبناک ہیں۔

اس نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہم لوگوں کو قتل کرنے کے لیے دھماکہ خیز مواد استعمال کرنے پر عسکریت پسندوں کی مذمّت کرتے ہیں۔“

'آسان اہداف' پر حملوں کی تدبیر

معین نے فریبی پھندوں کے بارے میں کہا کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے ”یہ بزدلانہ اقدامات افواج کے سامنے نہیں ٹک سکتے۔“

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکیورٹی تجزیہ کار خادم حسین نے کہا کہ فوج نے طالبان کو شکست دے دی ہے، لیکن وہ ابھی تک ”اسان اہداف“ کو نشانہ بنانے کی صلاحیّت رکھتے ہیں۔

انہوں نے آپریشن ردّالفساد جیسی انسدادِ شورش کی مہموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”عسکریت پسند اپنی موجودگی کا اظہار کرنے کے لیے بچوں، پولیو کارکنان اور [چند] پولیس اہلکاروں کو قتل کرتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی منظر سے غائب ہو جائیں گے۔“

انہوں نے تنبیہ کی کہ فریبی پھندوں سے متعلق عوامی آگاہی کے بڑھنے کے باوجود بچے اپنی سادگی کی وجہ سے کھلونا بموں کے سب سے زیادہ زد پذیر ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500