پناہ گزین

افعانیوں کی پاکستان سے وطن واپسی سست ہو رہی ہے

اے ایف پی

افغان مہاجر خاندان، پشاور کے باہر 27 اپریل کو اقوامِ متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے وطن واپسی کے مرکز میں اپنے سامان کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ خانہ جنگی اور طالبان کی حکومت سے بھاگ کر آنے کے بعد اب وطن واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ ]عبدل مجید/ اے ایف پی[

افغان مہاجر خاندان، پشاور کے باہر 27 اپریل کو اقوامِ متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے وطن واپسی کے مرکز میں اپنے سامان کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ خانہ جنگی اور طالبان کی حکومت سے بھاگ کر آنے کے بعد اب وطن واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ ]عبدل مجید/ اے ایف پی[

اسلام آباد -- اقوامِ متحدہ کے حکام نے جمعرات (8 جون) کو کہا کہ پاکستان سے وطن واپس جانے والے افغان مہاجرین کی تعداد میں اس سال کمی کی توقع ہے، اس سے پہلے 2016 میں ریکارڈ تعداد میں مہاجرین کے وطن واپس جانے کے باعث انسانی بحران کے پیدا ہو جانے کے خدشات نے جنم لے لیا تھا۔

اقوامِ متحدہ نے کہا کہ تقریبا 32,000 رجسٹرڈ مہاجرین 3 اپریل سے لے کر اب تک پاکستان سے واپس گئے ہیں جب موسمِ سرما کے اختتام کے بعد وطن واپسی کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

گزشتہسال 370,000 افغانیوں کی ریکارڈ تعداد پاکستان سے گئی تھی۔ ان میں سے بہت سے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچے اور یہاں تک کہ ایسے افغانیوں کے پوتے/ پوتیاں/ نواسے/ نواسیاں بھی تھے جو 1980 کی دہائی میں روسی حملے کے بعد وہاں سے بھاگے تھے۔

افغانیوں کی واپس جانے والی تعداد 2015 میں 55,000 تھی۔

مشاہدین کا کہنا ہے کہ واپس جانے والوں کی تعداد میں پاکستان کے افغانیوں کے بارے میں سخت ہوتے ہوئے رویے کے باعث بھی اضافہ ہوا ہے جن کا الزام ہے کہ یہ برادری عسکریت پسندوں اور مجرموں کو پناہ دینے کی ذمہ دار ہے۔

بہت سے عناصر کی وجہ سے واپسی میں کمی آئی ہے

مگر بظاہر پاکستان میں بہتر ہوتے ہوئے حالات،اس کے ساتھ ہی یہ تصورات کہ افغان حکومت واپس آنے والوں کی مدد کے بارے میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے، کے باعث اب واپس جانے والوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ایک ترجمان ڈین میکنورٹن نے کہا کہ "پاکستان میں گزشتہ سال کے مقابلے میں صورت حال اس وقت بہت مختلف ہے۔ گزشتہ موسمِ گرما میں پاکستان میں افغانیوں کو واپس چلے جانے کی طرف دھکیلنے والے زیادہ واضح عناصر تھے"۔

فروری میں، پاکستان نے افغان مہاجرین کے انتظام کے لیے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا جس میں دستاویزات نہ رکھنے والے افغانیوں کی رجسٹریشن اور مہاجرین کے لیے نیا قانون اور افغانیوں کے لیے ویزے کا نیا طریقہ کار بنانا شامل تھا۔

ایسے اقدامات نے افغانیوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ افغانستان، جہاں حکومت، طالبان اور "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے عسکریت پسندوں میں لڑائی جاری ہے، جانے کا خطرہ مول لینے کی بجائے پاکستان میں قیام کو جاری رکھیں۔

کابل میں سیکورٹی،جہاں واپس جانے والوں کی اکثریت پناہ حاصل کرتی ہے، گزشتہ ہفتے میں خراب ہو گئی ہے اور شہر کے سفارتی کوارٹر میں بہت بڑے بم دھماکے کے بعد، جس میں150 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے، غصہ بڑھ رہا ہے۔

حکام نے کہا کہ یو این ایچ سی آر کی طرف سے فراہم کیے جانے والے امدادی پیکجز کو بھی واپس 200 ڈالر فی کس کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال اسے 400 ڈالر تک بڑھا دیا گیا تھا۔ مشاہدین کا کہنا ہے کہ اس سے واپس آنے والوں کی تعداد میں سیلاب کی حوصلہ افزائی ہوئی تھی۔

لاکھوں پاکستان میں باقی ہیں

یو این ایچ سی آر کی طرف سے فنڈ کردہ رضاکارانہ واپسی کے پروگرام کے تحت 2002 سے اب تک تقریبا 4.2 ملین افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس جا چکے ہیں۔

مگر یو این ایچ سی آر اور پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ تقریبا 1.34 ملین رجسٹرڈ مہاجرین ابھی بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ اعداد و شمار کہتے ہیں کہ مزید نصف ملین غیر رجٹسرڈ مہاجرین بھی ملک میں رہ رہے ہیں۔

یو این ایچ سی آر کے پاکستان کے لیے ملکی نمائندے اندریکا رتواتے نے کہا کہ 37 سالوں تک دنیا کی سب سے بڑی مہاجرین کی آبادی کی میزبانی کے بعد پاکستان میں ایک قسم کی تھکن پیدا ہو گئی ہے۔

تاہم، ہیومن رائٹس واچ ماضی میں پاکستان کے وطن واپس جانے والوں کے بارے میں "تشدد آمیز" طریقے کے بارے میں آواز بلند کرتا رہا ہے اور اس نے حکومت پر من مانی کی حراستوں اور دیگر خلاف ورزیوں کو الزام لگایا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500