سلامتی

بلوچستان آپریشن میں داعش کے 12 کمانڈر مارے گئے

عبدالغنی کاکڑ

حکام کے مطابق، 4 جون کو ایک پاکستانی سپاہی آپریشن ردّالفساد کے جزُ کے طور پر ضلع مستونگ میں 'دولتِ اسلامیۂ' (داعش) عسکریت پسندوں کے خلاف ایک تین روزہ حملہ میں شرکت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ عسکری ذرائع کے مطابق، غار پر حملہ کرنے والے فوجیوں نے داعش کے کم از کم 12 کمانڈر ہلاک کیے۔ [فائل]

حکام کے مطابق، 4 جون کو ایک پاکستانی سپاہی آپریشن ردّالفساد کے جزُ کے طور پر ضلع مستونگ میں 'دولتِ اسلامیۂ' (داعش) عسکریت پسندوں کے خلاف ایک تین روزہ حملہ میں شرکت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ عسکری ذرائع کے مطابق، غار پر حملہ کرنے والے فوجیوں نے داعش کے کم از کم 12 کمانڈر ہلاک کیے۔ [فائل]

کوئٹہ — حکام نے اتوار (4 جون) کو کہا کہ ضلع مستونگ کے نواح میں انٹیلی جنس پر مبنی انسدادِ شورش کے ایک آپریشن میں ”دولتِ اسلامیۂ“ (داعش) کے کم از کم 12 کمانڈر مارے گئے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر انٹیلی جنس عہدیدارعمران عابد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”مستونگ کے علاقہ سپلنجی کے قریب ناہموار پہاڑیوں میں کیا گیا یہ ایک بڑے پیمانے کا آپریشن تھا جس میں اس تمام تر آپریشن میں سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان میں دہشتگردی کی بڑی کاروائیوں کو ناکام بنایا۔“

عابد نے کہا، ”ہلاک کیے گئے دہشتگرد ملزمان ایک غار میں چھپے ہوئے تھے جو داعش بلوچستان کا ایک مرکزی مؤثر کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر تھی۔“

انہوں نے کہا، ”یہ غار شہر سے 50 کلومیٹر دور تھی اور علاقہ کی زمینی خصوصیات کی وجہ سے تدبیری طور پرعسکریت پسندوں سے براہِ راست مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا آپریشن میں فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کیے گئے۔“

3 جون کو مستونگ میں ضلع مستونگ میں افواجِ پاکستان کی جانب سے ضبط شدہ اسلحہ دکھایا جا رہا ہے۔ [آئی ایس پی آر]

3 جون کو مستونگ میں ضلع مستونگ میں افواجِ پاکستان کی جانب سے ضبط شدہ اسلحہ دکھایا جا رہا ہے۔ [آئی ایس پی آر]

انہوں نے کہا، ”ہماری افواج نے دہشتگردوں کی اس کمین گاہ سے اسلحہ اور گولہ بارود کا ایک بڑا ذخیرہ ضبط کیا۔“

یہ تین روزہ آپریشن فروری میں شروع ہونے والے انسدادِ دہشتگری کے جاری کا ایک جزُ تھا۔

انہوں نے کہا، ”ہدف بنایا گیا غار پاکستان میں داعش کا صدردفتر تھا، جہاں کلیدی کمانڈر سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں اپنے آپریشنز کو کنٹرول کر رہے تھے۔ اسے [ہدف بنایا جانا] دشمنانِ پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکہ تھا۔“

فوج کے میڈیا ونگ، انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے آپریشن کی تفصیلات کی تصدیق کی۔

آئی ایس پی آر نے 4 جون کے ایک بیان میں کہا، ”دہشتگرد بلوچستان میں دہشتگردانہ کاروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے، انہیں مربوط کرنے اور عملدرآمد کی غرض سے ایک غار کے اندر چھپے تھے۔“

بیان میں کہا گیا، ”گولیوں کے تبادلہ میں 12 جارح دہشتگرد مارے گئے،“ مزید کہا گیا کہ 10 سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ دفاعی عہدیدار، محمّد ہلال نے کہا، ”ہمارے سپیشل سروسز گروپ کے کمانڈوز بھی اس آپریشن کا جزُ تھے۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”یہ نہایت کامیابی سے انجام پایا اور تمام کلیدی عسکریت پسند کمانڈر ختم کر دیے گئے،“ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کمانڈر اس غار میں ایک ”اعلیٰ سطحی اجلاس“ منعقد کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا، ”وہ پاکستان کے باقی حصّوں میں مزید دہشتگردانہ حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔“

ہلال نے کہا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند گروہ لشکرِ جھنگوی اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دھڑے جماعت الاحرار کے عسکریت پسند ہلاک شدگان میں بتائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”اس آپریشن کی قیادت اعلیٰ ترین انٹیلی جنس ایجنسی کے عملہ نے کی، اور [غار کی] تلاشی کے دوران انہوں نے موقع سے انتہائی اہم دستاویزات بازیاب کیں۔“

ہلال نے کہا، ان دستاویزات نے داعش عسکریت پسندوں کی ”بڑے پیمانے کی تباہی کی حکمتِ عملی کا انکشاف کیا۔۔۔ جو پاکستان کے لیے بنائی جا رہی تھی“۔

انہوں نے کہا، ”ہم اپنی قومی سلامتی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ خطے میں عسکریت پسندی کے خلاف ہمارا مصمّم عزم ملک کی سالمیّت کے لیے اہم ہے۔“

انسداد دہشت گردی کی پالیسی پر نظر ثانی

لاہور میں مقیم سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے بتایا، پاکستان حالت جنگ میں ہے، اور دشمن ملک میں بے چینی پھیلانے کے لئے دہشت گردی کو سپانسر کر رہا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سیکورٹی میں موجود بڑے خلا پر کرنے کے لئے ریاست کو اپنی نیشنل سیکورٹی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔"

انہوں نے بتایا، جنوری 2015 میں وضع کیا جانے والا پاکستان کا جامع انسداد دہشت گردی منصوبہ، نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) ابھی تک مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکا ہے۔

"این اے پی کا نفاذ سویلین جانب سے سست روی اور غیر مستقلی کا شکار ہے اور عمل سے زیادہ زبانی جمع خرچ پر محمول ہے،" رضوی نے مزید بتایا کہ سیاسی اور غیر ملکی مداخلت این اے پی کے مکمل نفاذ میں مزاحم ہے۔

"ہماری سیاسی اور ملٹری قیادت کو ان خطرات سے نمٹنا چاہیئے۔"

تشدد کے انسداد کے لئے اسلام کا استعمال

رضوی نے بتایا، دہشت گردی کے خلاف فتح کو لاحق خطرات میں اسلام کی حقیقت کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنا شامل ہے، رضوی نے کہا.

انہوں نے بتایا، "بنیاد پرست عناصر دہشت گردی کو فروغ دینے کے لئے مذہب کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔"

"اسلام امن کا مذہب ہے اور اسنے محبت اور یگانگت پیغام دیا ہے،" انہوں نے بتایا۔ ریاست کو ملک میں اسلام کے حقیقی چہرے کو ترویج دینا چاہیئے اور امن دشمن عناصر کی جارحانہ حکمت علی کا سدباب کرنا چاہیئے.

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500