سیاست

مردم شماری پاکستان کی اقلیتوں کے لیے امّید اور خوف کا باعث

اے ایف پی

پاکستانی محکمۂ شماریات کا ایک اہلکار 28 مارچ کو لاہور کے نواحی علاقہ یوحنّاآباد میں ایک مردم شماری کے دوران ایک مسیحی خاتون سے معلومات اکٹھی کر رہا ہے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

پاکستانی محکمۂ شماریات کا ایک اہلکار 28 مارچ کو لاہور کے نواحی علاقہ یوحنّاآباد میں ایک مردم شماری کے دوران ایک مسیحی خاتون سے معلومات اکٹھی کر رہا ہے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

اسلام آباد — پاکستان کی نظرانداز، حملوں اور بکثرت توہینِ رسالت کے الزامات کا شکار اقلیتیں پرامّید ہیں کہ 1998 کے بعد سے ملک کی پہلی مردم شماری بہتر سیاسی نمائندگی اور حقوق کی جانب ایک قدم ہو گی۔

لاہور کے گنجان ضلع یوحنّاآباد، جو کہ پاکستان میں سب سے بڑا مسیحی علاقہ ہے، فعالیت پسند ساجد کرسٹوفر نے کہا کہ ان کی کمیونیٹی استادہ ہونے اور شمار کیے جانے کی منتظر ہے۔

انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اس مردم شماری سے ہمیں دو طرح فائدہ ہو گا۔ اوّلاً یہ کہ ہمیں اپنی آبادی کے بارے میں درست علم ہو گا، اب تک صرف اندازے ہی ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”دوسرے یہ کہ پارلیمان میں ہماری نمائندگی ہماری آبادی کے مطابق ہو گی، جیسا کہ جمہوری نظام میں ہماری حالیہ نمائندگی 1981 کی مردم شماری کے مطابق ہے۔“

مردم شماری ایک 'مؤثر ہتھیار'

ایک اندازے کے مطابق، 200 ملین کی آبادی کے ساتھ تیزی سے بڑھتا ہوا پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے بڑا گنجان آباد ملک ہے لیکن ہر دہائی میں ایک مرتبہ مردم شماری کے آئینی تقاضے کے باوجود تقریباً دو دہائیوں سے اب تک مردم شماری منعقد نہیں ہوئی۔

ممکنہ نتائج پر جھگڑنے والے سیاستدانوں نے کئی برسوں تک اس شمار کو ملتوی رکھا۔

اقلیتی گروہوں سے متعلق اندازے قیاسی اور متنازع ہیں، جو مسیحیوں کے لیے 2 ملین تا 10 ملین اور ہندوؤں کے لیے 2.5 تا 4.5 ملین کی حد میں ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے آبادی فنڈ کی ایک مشیر نینسی سٹئیگلر نے کرسٹوفر کے نظریات کی عکاسی کرتے ہوئے مردم شماری کو نہ صرف اقلیتوں بلکہ ”پاکستان کی تمام آبادی“ کے لیے ”منصوبہ بندی کا ایک مؤثر ہتھیار“ قرار دیا۔

مزید درست اعداد و شمار کی طلب مردم شماری سے متعلقہ اختلافی امورکی وجہ سے ہے: کہ یہ سیاسی حدود کی تشکیلِ نو کرے گی اور وسائل کی تقسیمِ نو ناگزیر ہو جائے گی۔

مردم شماری دو مراحل میں منعقد ہوئی: 15 مارچ تا 15 اپریل اور 25 اپریل تا 25 مئی۔ نتائج جولائی کے آخر تک متوقع ہیں۔

خارج ہو جانے کا خطرہ

یہ عمل پیچیدگیوں سے خالی نہیں – اور تمام مذہبی اقلیّتیں اپنی پہچان کرانے کی مشتاق نہیں۔

پاکستانی احمدی، ایک اقلیتی اسلامی فرقہ، جنہیں حضرت محمّدؐ کے بعد ایک نبی پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے قانونی طور پر غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے، ایک اندازے کے مطابق 500,000 کی تعداد میں ہیں اور ایذا رسانی اور تشدد کا شکار ہیں۔

خود کو مسلمان تک کہلانے کی ممانعت کے ساتھ وہ اس وقت خود کو ایک خطرناک صورتِ حال میں دیکھتے ہیں جب مردم شماری کے اہلکار آ کر ان سے اپنے مذہب کا اظہار کرنے کا کہتے ہیں۔

جب بلوچستان کے ایک رہائشی نے مردم شماری کے اہلکاروں کے سامنے خود کو احمدی ظاہر کیا تو انہوں نے اس مسجد سے باہر تک اس کا تعاقب کیا جہاں انہوں نے شمار کے لیے خاندانوں کو جمع کیا تھا، کمیونیٹی کے ایک ترجمان، سلیم الدین، نے تحفط کی وجوہات کی بنا پر اس شخص کی شناخت ظاہر کیے بغیر اے ایف پی کو بتایا۔

انہوں نے کہا کہ دیگر واقعات میں مردم شماری کے اہلکار فرض کرتے ہیں کہ احمدی مسلمان ہیں کیوں کہ ان کے نام عام آبادی سے مختلف نہیں ہوتے اور وہ ان کی طرف سے مسلمان کے خانہ میں نشان لگا دیتے ہیں۔ یہ ممکنہ طور پر ایک خطرناک اقدام ہے۔

سلیم الدین نے کہا کہ پاکستان کے قوانین کے تحت، ”اگر میں خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہوں۔۔۔ تو مجھے تین برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔“

کم توقعات

شناخت کر لیے جانے کے خواہشمند گروہ بھی محتاط ہیں، ان کے خدشات کو پاکستانی اقلیتیوں کے مابین عمیق طور پر رچے ہوئے تلخ تجربات مزید بھڑکاتے ہیں۔

شہری خود کو مسلمان، مسیحی، ہندو، احمدی یا ”دیگر“ ظاہر کر سکتے ہیں۔

لیکن ہندو حقوق کے فعالیت پسند کپیل دیو نے مردم شماری میں ذات کا اختیار رکھنے پر حکومت پر تفریقیت کا الزام لگایا، جبکہ کمیونیٹی خود کو ایک ہی وجود کے طور پر درج کرانا چاہتی ہے۔

رادیش سنگھ ٹونی پشاور کے شمال مغربی شہر میں عدالت پہنچ گیا کیوں کہ فارم پر سکھ مت کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔

عدالت نے اس فعالیت پسند کے حق میں فیصلہ دیا اور حکومت کو سکھوں کو شامل کرنے کا حکم دیا – لیکن شمار کا آغاز پہلے ہی سے ہو چکا تھا، اور رادیش پر امید نہیں تھا۔

انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ”عدالتی احکامات کو نظر انداز کرنے کا حکومت کا ریکارڈ ہے۔“

اور اگرچہ کرسٹوفر پراعتماد ہیں، ان کے بہت سے ساتھی مسیحی یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر ان کا شمار درست طور پر ہو بھی جائے تو اس سے اس وقت تک کوئی تبدیلی نہ آئے گی جب تک غیر مسلموں کی جانب پاکستان کا رویّہ بہتر نہ ہو جائے۔

اسلام آباد میں ایک 37 سالہ مسیحی دکاندار پرویز جازبی نے کہا، ”مسلمان کسی مسیحی کو ترقی کرتا یا اچھی تعلیم حاصل کرتا یا ایک اچھی ملازمت حاصل کرتا نہیں دیکھ سکتے – یہ ایک حقیقت ہے۔“

مسیحی طالبہ ثانیہ نشتر نے اتفاق کرتے ہوئے کہا، ”امتیاز کا عنصر ہمیشہ موجود رہتا ہے۔“

سلیم الدین نے کہا کہ بلوچستان کی مسجد سے فرار ہونے والا احمدی شخص ایک نفرت انگیز مہم کا شکار بن گیا اور اسے خوراک تک خریدنے سے روک دیا گیا۔

سلیم الدین نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ”وہ اپنے خاندان کے ساتھ فرار ہو گیا۔ وہ تب سے پوشیدگی میں زندگی بسر کر رہا ہے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 5

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

میں حکومتِ پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ پی پی پی پی ”بھٹّو“ کا نام شامل ہے یا نہیں۔ پورے ملک میں چیک کر کے گنیں۔

جواب

میں پاکستان کی مردم شماری 2017 کے نتائج میں دلچسپی رکھتا ہوں اور ان کا منتظر ہوں۔

جواب

میں 2017 کی مردم شماری کے مؤلف شدہ نتائج میں دلچسپی رکھتا ہوں۔

جواب

اسے جاری رکھیں

جواب

مردم شماری کی ٹیم ہمارے گھر نہیں آئی ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟ برائے مہربانی بتائیں

جواب