رواداری

پاکستانی علماء پر معاشرتی عدم برداشت میں فعال کردار ادا کرنے پر زور دیا گیا ہے

آمنہ ناصر جمال

پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین 20 مارچ کو اسلام آباد میں پاک انسٹی ٹیوٹ فور پیس اسٹڈیز کی طرف سے منظم کردہ ایک مباحثے میں شریک ہیں۔ ]آمنہ ناصر جمال[

پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین 20 مارچ کو اسلام آباد میں پاک انسٹی ٹیوٹ فور پیس اسٹڈیز کی طرف سے منظم کردہ ایک مباحثے میں شریک ہیں۔ ]آمنہ ناصر جمال[

اسلام آباد - پاکستان کے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک دہشت گردی اور تشدد کا شکار رہنے سے نکلنے کے مبصرین، مذہبی علماء اور ماہرینِ تعلیم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ عدم برداشت کی ذہنیت کو تبدیل کرنے میں مدد کریں۔

پاکستان نے خوفناک ترین دہشت گردانہ حملوں کا سامنا کیا ہے جن میں دسمبر 2014 میں پشاور میں، آرمی پبلک اسکول میں 150 سے زیادہ بچوں اور اساتذہ کا قتل بھی شامل ہے۔

بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے ردعمل کے طور پر حکومت نے بہت سی عسکری مہمات، انٹیلیجنس کی بنیاد پر آپریشنز اور پولیس کریک ڈاون کا آغاز کیا جس میں آپریشن ضربِ عضب(جس کا آغاز جون 2014 میں ہوا)، انسداد دہشت گردی کا نیشنل ایکشن پلانجو جنوری 2015 میں شروع ہوا اور آپریشن ردالفساد (جس کا آغاز فروری 2017 میں ہوا) شامل ہیں۔

ہمدردی اور رواداری کو فروغ دینا

تجزیہ نگاروں جیسے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی سائنس دان پروفیسر حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ ان اقدامات نے ماضی کے سالوں کے مقابلے میں ملک کو کہیں زیادہ محفوظ بنا دیا ہے مگر یہ پیش رفت اس وقت تک مستقل نہیں ہو سکتی جب تک کہ ملک اپنی ذہنیت کو نہیں بدلتا۔

انہوں نے ایسے رویوں جن کے باعث ہجوم نے توہینِ رسالت کا الزام لگا کر افراد کو مل کر ہلاک کر دیا یا ایسے افراد جنہوں نے نوجوانوں کو بہکا کر دہشت گردانہ گروہوں میں شامل کر دیا، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی عدم برداشت نے "پاکستان کے سماجی تانے بانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "نوجوان خصوصی طور پر بڑھتے ہوئے بنیاد پرست نظریات کا شکار بن سکتے ہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی وجود کے ساتھ وفاداری کا مطالبہ کرتا ہے جو شہریت کے تصور کی جگہ لے لیتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ بنیاد پرستی نے "ثقافتی حکم عدولی میں اضافہ کیا ہے جس سے معاشرتی بدامنی پیدا ہوئی ہے"۔

رضوی نے کہا کہ پاکستان کو متبادل انقلابی سوچ تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو کہ بانیوں کے "ملک کے بارے میں اصل تصور" کی طرف اسے واپس لے جائے۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں اسلام کی دانش ورانہ اور مشفق طرف کو پھیلانے کی ضرورت ہے"۔

مذہبی عالم، حکومت لازمی قدم اٹھائے

رضوی نے کہا کہ علماء کو "مختلف مذاہب میں موجود مماثلتوں کو اجاگر کرنے اور جدید شہریت کے بارے میں سجھ بوجھ کو پیدا کرنے جو کہ برداشت، انصاف اور ہم آہنگی سے مطابقت رکھتی ہے" سے بڑھتی ہوئی عدم برداشت سے جنگ کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ معلمین کو دہشت گردوں کی طرف سے اسلام کی غلط تشریحات کو "لوگوں کے لیے ناقابلِ قبول" بنانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے مذہبی تنوع کے فروغ کو بنیادی قدر قرار دیا۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں تقریبا 95 فیصد آبادی مسلمان ہے جس میں سے دسواں حصہ شعیہ ہیں۔

رضوی نے کہا کہ برداشت میں ترقی حاصل کرنے کے لیے "صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے، انصاف کے نظام کی اصلاح، گورنس کو بہتر بنانے، قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم، مزید قدرتی وسائل کی تلاش اور آبادی کے دباو کا مقابلہ کرنے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس پلیٹ فارم ہیں جہاں وہ ان مسائل کے بارے میں بات کر رہے ہیں مگر "صوبوں اور مرکز میں حکومت کرنے والی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ضروری اقدامات کریں"۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لیے آئین کی راہنمائی پر انحصار کرنا کامیابی کی کنجی ہو گا۔ انہوں نے اس میں پاکستان کے تمام شہریوں کے لیے برابر کے حقوق کی شرائط اور نجی افواج اور ملیشیاء کے خلاف اس میں موجود پابندیوں کا حوالہ دیا۔

عسکریت پسندوں کے زہریلے نظریات کا مقابلہ

اسلام آباد میں بیس مارچ کو ایک سیمینار کے لیے اکٹھے ہونے والے علماء اور ماہرین نے طویل دورانیے میں دہشت گردی کو شکست دینے میں ملک میں مزید برداشت کو پیدا کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تھنک ٹینک، پاک انسٹی ٹیوٹ فور پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) نے اس سیمینار کو منعقد کیا تھا جس میں 15 مذہبی علماء اور سماجی سائنس دانوں نے شرکت کی۔

کانفرنس نے عسکریت پسندوں کو اس آبادی سے الگ کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا جنہیں وہ دھوکہ دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے، پاکستان کو عسکریت پسندوں کو ان کے خیالات کے دائرے میں چیلنج کرنا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلمان علماء کو تعلیم اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے آواز دینے سے عسکریت پسندوں کے زہریلے نظریات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

ایک خیال قومی اور صوبائی مکالماتی فورم بنانے جیسے کہ تھنک ٹینک اور میڈیا ہاوسز اور یونیورسٹیوں میں پہلے سے موجود علاقائی اسٹڈی سینٹروں کو بہتر بنانے کا بھی تھا تاکہ پاکستانی شہری دوسرے مذاہب اور فرقوں کے بارے میں زیادہ سیکھ سکیں۔

برداشت، امن کے لیے تعلیم لازمی ہے

کراچی یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابقہ چیرمین سید جعفر احمد نے کانفرنس میں اپنے خطاب میں کہا کہ "تعلیم ابھی بھی کنجی ہے۔ معاشرے سے بنیاد پرستی کو ختم کرنے کے لیے، ہمیں قومی نصاب خصوصی طور پر سوشل سائنسز کو دوبارہ سے ڈیزائن کرنے کی ضرورت ہے"۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو "نہ صرف مذہبی علماء بلکہ مذہبی دانش وروں کے ساتھ بھی شراکت کرنی چاہیے" تاکہ ایسا نصاب بنایا جا سکے جو "انتہاپسندانہ تصورات کو کم کرے، نقادانہ سوچ پیدا کرے اور برداشت، ہمدردی اور تنوع کے احترام کی مذہبی اقدار کو فروغ دے"۔

لاہور کے عالم راغب نعیمی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مذہب کی بنیاد پر امن کی تعمیر، تنازعات کے انسداد اور تنازعات کے حل میں مذہب کے کردار پر زور دیتی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "تاریخ میں مذہب کو لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے درست اور غلط طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ہمیں پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر امن کی تعمیر کو فروغ دینا چاہیے تاکہ طویل دورانیے میں بنیاد پرستی کو کم کیا جا سکے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500