تعلیم

اسکول میں 100% داخلہ فاٹا کا ہدف

اشفاق یوسفزئی

خیبر پختونخواہ کے گورنر ظفر اقبال جھگڑا (بائیں جانب) 7 مارچ کو پشاور میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے ایک بہترین طالب علم کو سرٹیفکیٹ اور نقد اعزازیہ پیش کر رہے ہیں۔ جھگڑا نے فاٹا کے اسکولوں میں 100% داخلوں کے لئے اپریل میں ایک تعلیمی مہم کا آغاز کیا ہے۔ [بشکریہ کے پی گورنرہاؤس]

خیبر پختونخواہ کے گورنر ظفر اقبال جھگڑا (بائیں جانب) 7 مارچ کو پشاور میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے ایک بہترین طالب علم کو سرٹیفکیٹ اور نقد اعزازیہ پیش کر رہے ہیں۔ جھگڑا نے فاٹا کے اسکولوں میں 100% داخلوں کے لئے اپریل میں ایک تعلیمی مہم کا آغاز کیا ہے۔ [بشکریہ کے پی گورنرہاؤس]

پشاور – حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے عسکریت پسندی سے تباہ حال وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات(فاٹا) میں دہشت گردی کی روک تھام اور امن کی بحالی کا بہترین طریقہ تعلیم ہے۔

خیبر پختونخواہ کے گورنر ظفر اقبال جھگڑا نے فاٹا کے بچوں کے اسکول میں 100% داخلوں کے لئے حال ہی میں ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔

"ہم پہلے ہی فاٹا میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرچکے ہیں،" انہوں نے 8 اپریل کو ایک بیان میں بتاتے ہوئے مزید کہا، کہ علم کی ترویج ایک "سب سے اہم ترجیح" ہے۔

انہوں نے بتایا، تعلیم ملک کی سماجی اقتصادی ترقی کی کلید ہے۔

100% لڑکوں اور لڑکیوں کے داخلے

ڈائیریکٹر تعلیم فاٹا، ہاشم خان آفریدی نے بتایا، داخلہ مہم کے دوران، 4 اور 9 سال کے بچوں کو اسکولوں میں داخلہ دیا جائے گا۔

31 مئی تک جاری رہنے والی مہم کا ہدف فاٹا میں شرح خواندگی کو بہتر بنانا ہے، انہوں نے بتایا۔ دوسرے مرحلے کی منصوبہ بندی ستمبر کے لئے کی گئی ہے۔

"ہم خواتین کی تعلیم پر توجہ مرکوز کریں گے جو خطرناک حد تک کم ہے،" آفریدی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ "ہم 100% لڑکوں اور لڑکیوں کو داخلے دینا چاہتے ہیں۔"

2001 کے بعد کے برسوں میں دہشت گردوں نے فاٹا میں تقریباً 700 اسکول تباہ کیے تھے۔ فاٹا سیکرٹریٹ پشاور میں ڈپٹی ڈائریکٹر پلاننگ زاہد اللہ خان نے گزشتہ دسمبر میں پاکستان فارورڈ کو بتایا.

آفریدی نے بتایا، "شورش نے لوگوں کو دہشت زدہ اور تعلیمی عمل کو متاثر کردیا ہے۔"

انہوں نے بتایا، تعلیم کو سبوتاژ کرنے میں دیگر عوامل میں، "اسکولوں تک نارسائی، غیر معیاری تعلیم، برقرار رہنے کی کم تر شرح، عسکریت پسندی، انخلا اور علاقے میں موجود رسوم و روایات" شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا، حکومت کا تعلیم کی اہمیت سے متعلق عوامی آگاہی کو بڑھانے کا منصوبہ ہے تاکہ قبائلی عوام اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو اسکول بھیجیں۔

تعلیم بطور ترقی کی شرطِ اوّل

فاٹا میں ہر دو جنسوں کے لیے لیکن بطورِ خاص لڑکیوں کے لیے سکولوں میں داخلہ کی شرح کم ہے

فاٹا نظامتِ تعلیم کے مطابق فاٹا کی ، 3 تا 13 برس کے درمیان کی عمر کی لڑکیوں میں سے تقریباً 15 فیصد کبھی سکول میں داخل نہیں ہوئیں۔ اسی عمر کے لڑکوں کے داخلہ کی شرح 37 فیصد ہے۔

حکام کے مطابق، فاٹا میں ابتدائی سکولوں میں داخل ہونے والی 33 فیصد لڑکیوں میں سے نصف سے زائد ثانوی سکول تک پہنچنے سے قبل چھوڑ جاتی ہیں۔

باچا خان ٹرسٹ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر خادم حسین نے کہا کہ داخلہ کی یہ مہم بروقت تھی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پاک فوج نے فاٹا سے عسکریت پسندوں کو بے دخل کر دیا ہے، اور فروغِ تعلیم کی مہم کو تیز تر کرنے کا یہ موزوںوقت ہے۔“

انہوں نے کہا، ”اگر ہم پاکستان کو ترقی یافتہ اور خودمختار ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہر شہری کو تعلیم دینا نہایت ضروری ہے۔“

حسین نے کہا، ”ہم قبائلی آبادی سے حکومتی مہم سے استفادہ کرنے اور اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی اپیل کرتے ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا، ”کسی قوم کی حقیقی ترقی کے لیے تعلیم ایک شرطِ لازم ہے۔“

انہوں نے کہا کہ تعلیم ہر بچے کا حق ہے اور حکومت فاٹا کے ہر بچے کو تعلیم دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ”یہ ایک اچھی علامت ہے کہ حکومت بچوں کو تعلیم دینے کی اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔“

علم کے ذریعے دہشت گردی کو شکست

فاٹا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ایک ترجمان عبدالوکیل نے کہا کہ وہ داخلہ مہم کی پذیرائی کرتے ہیں اور کہا کہ یہ امنِ عامہ کو بہتر بنانے میں ایک قابلِ تعریف اقدام ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہمارے لوگوں نے عسکریت پسندی کی وجہ سے نقصانات اٹھائے ہیں۔ ہمیں مزید طالبِ علم داخل کرنے اور پرامن اور آسودہ خاطر مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے اضافی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔“

انہوں نے کہا ، ”تعلیم دہشتگردی کو شکست دینے کا واحد ذریعہ ہے۔“

مہمند ایجنسی میں ایک استاد ، جواد علی نے کہا کہ والدین اپنے بچوں کو اس لیے سکول بھیجنا چاہتے ہیں کیوں کہ وہ تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ایسے شورشیوں کے خلاف ایک جنگ ہونی چاہیئے جو لوگوں کو واپس پتھر کے دور میں دھکیلنا چاہتے تھے۔ مزید طالبِ علموں کو سکولوں میں لانا عسکریت پسندوں کے لیے ایک فاش سکست ہو گی۔“

انہوں نے کہا، ”ہمارے بچے نہایت قابل ہیں۔ ایک نسل طالبان عسکریت پسندوں کے تحت پروان چڑھی ہے۔ اسے تعلیم کی بھی ضرورت ہے۔“

مزید اساتذہ کی بھرتیاں

فاٹا کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری فدا محمّد وزیر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم معاشرتی-معاشی ترقی کا ایک اوزار اور مفت تعلیم ایک آئنی حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقابلہ کا ایک عنصر بھی داخلہ کی حکمتِ عملی کا جزُ ہے۔ ”ہم سکولوں میں ]زیادہ[ داخلوں پر ایجوکیشن آفیسرز، اساتذہ اور دیگر عملہ کو انعامات دیں گے۔“

وزیر نے کہا، ”ہم فاٹا کے 800 سکولوں میں کام کرنے والے 30,000 اساتذہ کے علاوہ 2,000 مزید بھرتی کر رہے ہیں۔“

خیبر ایجنسی میں آٹھویں جماعت کی ایک طالبہ شیما بی بی نے کہا کہ سلامتی کی صورتِ حال اس قدر بہتر ہو گئی ہے کہ بچوں کے سکول سے باہر رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیئے

اس نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”متعدد لڑکے لڑکیاں ایسے ہیں جو سکول نہیں جا رہے، اور ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بچوں کو سکول بھیجنا والدین کے لیے لازم قرار دے۔“

اس نے کہا، ”لوگ چاہتے ہیں۔۔۔ کہ حکومت تعلیم کو ترقی دے اور عسکریت پسندوں کا داخلہ بند کرے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

معلومات افزا

جواب