دہشتگردی

پاکستانی حکام کی جانب سے ایران کی فرقہ وارانہ مداخلت کی مذمت

از عبدالغنی کاکڑ

قم، ایران میں سوگواران شام میں جنگ میں مرنے والے زینبیون بریگیڈ کے ایک پاکستانی رکن کا تابوت اٹھائے ہوئے ہیں۔ [فائل]

قم، ایران میں سوگواران شام میں جنگ میں مرنے والے زینبیون بریگیڈ کے ایک پاکستانی رکن کا تابوت اٹھائے ہوئے ہیں۔ [فائل]

کوئٹہ -- حکام اور ماہرین نے تنبیہ کی ہے کہ ایران کی شام میں مداخلت اور بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں لڑنے کے لیے پاکستانی اور افغان شیعہ مسلمانوں کی بھرتی خطے میں فرقہ وارانہ فساد پھیلا رہی ہے۔

اسلام آباد کے مقامی پاکستان کے ایک اعلیٰ انٹیلیجنس عہدیدار، عمران عبداللہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایران شام میں خانہ جنگی کی کفالت کر رہا ہے، اور ایران کی اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستے (آئی آر جی سی) شیعہ جنگجوؤں کو اسلحہ، پیسہ، اور سیاسی اور تزویراتی امداد فراہم کر رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "بڑھتا ہوا فرقہ وارانہ انتشار خطے میں عسکریت پسندی کو بھڑکا رہا ہے۔"

پاکستانی حکومت ملوث افراد کی فعال نگرانی کر رہی ہے، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "ایرانی مقاصد کے لیے پاکستان اور افغانستان کے شیعہ لڑاکوں کی بھرتی شدید تشویش کا سبب ہے۔"

قم، ایران میں ایک سوگوار شام میں جنگ میں مرنے والے زینبیون بریگیڈ کے ایک پاکستانی رکن کے نام اور تصویر والا پوسٹر اٹھائے ہوئے۔ [فائل]

قم، ایران میں ایک سوگوار شام میں جنگ میں مرنے والے زینبیون بریگیڈ کے ایک پاکستانی رکن کے نام اور تصویر والا پوسٹر اٹھائے ہوئے۔ [فائل]

پاکستان میں ایرانی سفیر مہدی ہنردوست نے "ابھرتے ہوئے علاقائی سلامتی کے ماحول" پر گفتگو کرنے کے لیے 19 اپریل کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات اسلام آباد میں ایرانی سفارتخانے کی جانب سے ایران کے جنگجوؤں کو بھرتی کرنے میں ملوث ہونے کی "افواہوں" کی تردید کرتا ہوا بیان جاری کرنے کے ایک ہفتے بعد ہوئی ہے۔ [آئی ایس پی آر]

پاکستان میں ایرانی سفیر مہدی ہنردوست نے "ابھرتے ہوئے علاقائی سلامتی کے ماحول" پر گفتگو کرنے کے لیے 19 اپریل کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات اسلام آباد میں ایرانی سفارتخانے کی جانب سے ایران کے جنگجوؤں کو بھرتی کرنے میں ملوث ہونے کی "افواہوں" کی تردید کرتا ہوا بیان جاری کرنے کے ایک ہفتے بعد ہوئی ہے۔ [آئی ایس پی آر]

عبداللہ نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کی اور خفیہ ایجنسیوں "کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ پاکستانی شیعہ برادری میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثرورسوخ کو سامنے لائیں۔ ہم اپنے لوگوں کو کبھی بھی بیرونی مقاصد کے لیے بھاڑے کے ٹٹوؤں کے طور پر استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔"

مارچ میں "مشکوک شیعہ زائرین کی ایک بہت بڑی تعداد جو کہ آئی آر جی سے کے ساتھ رابطے میں تھی انہیں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بلوچستان کے مختلف حصوں سے اٹھا لیا گیا تھا،" کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شیعہ زائرین جو ایران میں زیارات کے لیے کوئٹہ تافتان کا راستہ استعمال کرتے ہیں کڑی نگرانی میں ہیں۔

انہوں نے کہا، "زینبیوں بریگیڈ کے ساتھ منسلک کچھ عناصر [۔۔۔] زائرین کا بھیس استعمال کرتے ہوئے پاکستان سے شیعہ جنگجوؤں کو بھرتی کر رہے ہیں اور انہیں منتقل کر رہے ہیں۔ ہم پاکستان اور ہمسایہ افغانستان سے شیعہ جنگجوؤں کی بھرتی میں ایران کے ملوث ہونے کی [تحقیقات] کر رہے ہیں۔"

زینبیون بریگیڈ ایران میں مقیم شیعہ پاکستانیوں، پاکستان میں مقیم شیعہ ہزارہ پناہ گزینوں اور پاکستان کے مقامی دیگر شیعہ باشندوں میں سے بھرتی کر رہا ہے۔

ایرانی ثقافتی مراکز 'ملوث'

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستانی وزارتِ دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایران شام میں ہونے والی نیابتی جنگ میں براہِ راست ملوث ہے اور میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں کہ پاکستانی شیعہ جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد بھرتی ہو چکی ہے اور ایرانی مقاصد کے لیے شام میں منتقل کی جا چکی ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہماری خفیہ رپورٹوں نے تصدیق کی ہے کہ [۔۔۔] ملک میں مختلف حصوں میں ایرانی ثقافتی مراکز بھی عسکری مقاصد کے لیے پاکستانی اور افغان شیعہ نوجوانوں کی بھرتی میں ملوث ہیں۔"

انہوں نے کہا، "تحقیقات جاری ہیں اور ریاست اولین ترجیح کے ساتھ اس معاملے پر [توجہ دینے] کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ علاقائی امور میں ایرانی مداخلت زینبیون بریگیڈ کے لیے بھرتی سے آگے تک جاتی ہے۔

انہوں نے کہا، "زیرِ حراست پاکستانی دہشت گرد عزیر بلوچ کے پاکستان میں فساد برپا کرنے اور فرقہ واریت پھیلانے اور ایرانی پاسپورٹ پر اس کے دبئی فرار کے متعلق حالیہ انکشافات بھی ایران کے منفی کردار کا ٹھوس ثبوت ہے۔"

پاکستان ٹوڈے نے خبر دی کہ 29 اپریل 2016 کو سندھ کے محکمۂ داخلہ میں بھجوائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، بدنامِ زمانہ پاکستانی سرغنہ، عزیر "عسکری تنصیبات اور حکام کے متعلق خفیہ معلومات غیر ملکی ایجنٹوں (ایرانی خفیہ اہلکاروں) کو مہیا کرنے کی مذموم سرگرمیوں" میں ملوث تھا۔

مذہبی جنگ چھیڑنا

بلوچستان کے ضلع پشین سے تعلق رکھنے والے ایک عالمِ دین اور مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر، غلام اللہ توحیدی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایران نہ صرف شیعہ نوجوانوں کو بھرتی کرنے پر توجہ دے رہا ہے بلکہ یہ پاکستان کے مختلف حصوں میں مقیم شیعہ دینی علماء کے ذریعے اپنا ایجنڈا پورا کرنے میں بھی ملوث ہے۔"

انہوں نے کہا، "ایران کی پشت پناہی حاصل ہونے والے علماء شامی تنازعہ کو بطور ایک مذہبی جنگ ہوا دے رہے ہیں۔"

ایرانی پشت پناہی حاصل ہونے والے دینی علماء راولپنڈی، اسلام آباد، پنجاب، سندھ، پاراچنار، گلگت بلتستان، کوئٹہ، لاڑکانہ سندھ اور پاکستان کے دیگر حصوں میں مصروفِ عمل ہیں، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "ایرانی پشت پناہی حاصل ہونے والے شیعہ علماء اپنے خطبات میں ایرانی ایجنڈے کی تبلیغ کر رہے ہیں اور وہ پاکستان سے ایرانی مقاصد کے لیے جنگجوؤں کو بھرتی کرنے میں زینبیون بریگیڈ کی خفیہ طور پر مدد بھی کر رہے ہیں۔"

توحیدی نے کہا، "غیرملکی پیسہ پاکستان میں انتہاپسندی کو فروغ دینے والے سب سے بڑے عناصر میں سے ایک ہے اور شام میں جاری جنگ کے لیے، ایران بھی مقامی شیعہ کے ذریعے اسلام اور عسکریت پسندی کے مسخ شدہ ورژن کو فروغ دینے کے لیے پیسہ خرچ کر رہا ہے۔"

اسلام آباد کے مقامی ایک بڑے دفاعی تجزیہ کار، میجر (ر) محمد عمر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر ملکی نیابتیں ہماری سرزمین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔"

ریاست کو چاہیئے کہ ایسی مداخلت پر "فوری ردِعمل" دے کیونکہ ایرانی پشت پناہی کے حامل شیعہ جنگجو [پاکستان میں] اپنی واپسی پر افراتفری پیدا [کر سکتے] ہیں، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "ضروری احتساب کے بغیر بیرونی ذرائع سے فنڈنگ پاکستان میں امن مخالف عناصر کے مذموم عزائم میں معاونت کر رہی ہے۔"

انہوں نے کہا، "ایران اپنا انقلاب دیگر مسلمان ممالک میں درآمد کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ شام کی جنگ میں اتنا زیادہ ملوث ہے۔"

توحیدی نے کہا، "شام میں جاری جنگ مذہب کی جنگ نہیں ہے۔ بلکہ یہ سیاسی مقاصد کی جنگ ہے اور الاسد کی حکومت کے تمام حمایتی ایرانی مقاصد پورے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "پاکستان دوسروں کی جنگیں لڑنے کی حالت میں نہیں ہے۔ ہمارے لیے لازمی ہے کہ ایسی کوششوں سے نمٹنے کی اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کریں۔"

ایران میں طلباء و طالبات کی بھرتی

تافتان کے مقامی وزارتِ دفاع کے ایک سبکدوش ہونے والے اہلکار، ہاشم عابد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "آئی آر جی سی بنیادی طور پر ان غریب پاکستانی شیعوں کو بھرتی کرتی ہے جو ایران میں مہاجر ہیں۔ زینبیون جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد بھی مبینہ طور پر قم، ایران میں شیعہ مدارس میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلباء و طالبات کو بھرتی کر رہی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ قم میں المصطفیٰ بین الاقوامی یونیورسٹی "ان سب سے بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے جو غیر ملکی شیعہ علماء اور مبلغوں کو ایرانی انقلابی ایجنڈے کے متعلق خصوصی تعلیم فراہم کر رہی ہیں۔ ہمارے پاس رپورٹیں ہیں کہ پاکستانی شیعہ جنگجوؤں کا پہلا گروہ جنہوں نے زینبیون بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی تھی وہ المصطفیٰ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کا ایک گروہ تھا۔"

"غیر ملکی شیعوں جو ایرانی مقصد کے تابع ہیں کی بھرتی المصطفیٰ یونیورسٹی کے شعبۂ داخلہ کی کلیدی ذمہ داری ہے،" کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی "پاکستان میں بھی کئی مدارس اور ثقافتی مراکز چلاتی ہے اور پرتشدد ایرانی نظریات [یہاں] درآمد کرنے کی کوشش کرتی ہے۔"

وسیع تر ملکی مفاد کے لیے پاکستان میں ایرانی مداخلت کو روکنے کے لیے پاکستانی رہنماؤں "پر لازم ہے کہ وہ مناسب اقدامات اٹھائیں"، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "پاکستان نے ہمیشہ علاقائی سیاست میں ایک غیرجانبدارانہ کردار ادا کیا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ان کی نگرانی ہونی چاہیئے اور مجرموں کو لٹکایا جانا چاہیئے۔۔۔۔ وہ ابتدائے اسلام ہی سے مسلمانوں کے دشمن ہیں۔۔

جواب