دہشتگردی

پاکستان میں ٹی ٹی پی اور داعش کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے

جاوید محمود

پاکستانی فورسز 3 مارچ کو جمرود تحصیل، خیبر ایجنسی میں میڈیا کے سامنے مبینہ عسکریت پسندوں اور ان کے ہتھیاروں کو پیش کر رہے ہیں۔ یہ گرفتاریاں آپریشن ردالفساد کے حصہ کے طور پر ہوئی ہیں۔ ]عبدل مجید/ اے ایف پی[

پاکستانی فورسز 3 مارچ کو جمرود تحصیل، خیبر ایجنسی میں میڈیا کے سامنے مبینہ عسکریت پسندوں اور ان کے ہتھیاروں کو پیش کر رہے ہیں۔ یہ گرفتاریاں آپریشن ردالفساد کے حصہ کے طور پر ہوئی ہیں۔ ]عبدل مجید/ اے ایف پی[

کراچی - مشاہدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی تنزل کا شکار ہے اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) جیسے گروہ اپنی کشش اور بڑے پیمانے پر حملے کرنے کی اپنی صلاحیت کھو رہے ہیں۔

مرکز برائے تحقیق و سیکورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) نے 22 مارچ کو شائع ہونے والی اپنی 2016 کی سالانہ سیکورٹی رپورٹ میں کہا کہ "عسکریت پسند، جنہیں فوجی آپریشنز کے حملوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ان کی گردن کے گرد پھندا تنگ ہونے کے باعث ملک سے فرار ہونا شروع ہو گئے ہیں اور انہوں نے نئی حکمتِ عملیاں اپنا لی ہیں"۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کی نئی حکمتِ عملیوں میں ایسے جغرافیائی علاقوں اور آبادی کو نشانہ بنانا شامل ہے جن کے حفاطتی انتظامات کم ہیں اور "سیکورٹی کے اہلکاروں کی زیادہ مضبوط مزاحمت کے باوجود گھریلو ساختہ بموں اور خودکش بمباروں کی زیادہ وسیع اقسام کو بھیجنا" شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ فوجی آپریشنز اور عسکری گروہوں کے خلاف عام شہریوں کی مزاحمت کے نتیجہ میں، پاکستان بھر میں تشدد سے متعلقہ ہلاکتوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ یہ تعداد 2015 میں4,647 تھی اور 2016 میں کم ہو کر2,613 ہو گئی ہے۔

صوبہ سندھ اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں سب سے زیادہ کمی دیکھی گئی ہے جب کہ پنجاب اور بلوچستان کو گزشتہ سال تشدد میں کسی حد تک اضافے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سی آر ایس ایس کی رپورٹ میں 2016 کے بارے میں کہا گیا کہ دونوں صوبے خودکش حملوں کا بڑا ہدف رہے ہیں جس سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان میں سات خودکش حملے ہوئےجس میں 220 افراد ہلاک ہوئے جن میں 61 پولیس ٹرینرز، 52 وکلاء اور ایک صوفی مزار پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہونے والے 62 زائرین شامل ہیں۔ جب کہ پنجاب میں گلشنِ اقبال پارک میں ایک بڑا خودکش حملہ ہوا جس میں 74 افراد ہلاک ہوئے جن میں 29 بچے بھی شامل تھے۔

عسکریت پسند ہلاک اور گرفتار

رپورٹ میں کہا گیا کہ دریں اثنا، گزشتہ سال کے دوران، ٹی ٹی پی کو ملک بھر میں سیکورٹی کے آپریشنز کے دوران سب سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد ٹی ٹی پی سے منسلک گروہ، القاعدہ اور اس سے منسلک گروہ اور داعش شامل ہیں۔

سی آر ایس ایس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امتیاز گل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "2015 اور 2016 میں، پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے 1,657عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جن میں سے اکثریت کا تعلق ٹی ٹی پی اور دوسرے مرکزی دہشت گردانہ گروہوں سے تھا جنہوں نے ملک میں بڑے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی"۔

رپورٹ کے مطابق، سیکورٹی فورسز نے 2015 میں 860 عسکریت پسندوں کو اور 2016 میں 797عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا۔

گل نے کہا کہ "ہماری انٹیلیجنس ایجنسیوں نے ٹی ٹی پی، داعش اور دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کر لی ہے جس کی وجہ سے عسکریت پسندوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوئی ہے"۔

سی آر ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے 907 دیگر عسکریت پسندوں کو 2016 میں گرفتار کیا ہے جن میں 30 غیر ملکی عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔

انتہاپسندی کا خطرہ موجود ہے

اگرچہ سیکورٹی کی مجموعی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے، سی آر ایس ایس کی رپورٹ نے متنبہ کیا کہ "انتہاپسندی کی بنیادی وجہ ابھی بھی موجود ہے"۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے علاوہ، عسکریت پسندوں نے 2015 میں 402 اور 2016 میں 519 شہریوں اور سیکورٹی کے اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے۔ ٹی ٹی پی اور داعش سے متعلقہ گروہوں نے 2016 میں ہونے والی شہریوں کی ہلاکتوں میں سے اکثریت کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

سی آر ایس ایس کے اعداد و شمار کے مطابق، داعش کے عناصر 2016 میں سامنے آئے اور انہوں نے ٹی ٹی پی کے دھڑوں، جماعت الاحرار اور لشکرِ جھنگوئی کی مدد سے کیے جانے والے حملوں میں 203 جانیں لی ہیں۔

اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے انتظامی ڈائریکٹر عبداللہ خان نے کہا کہ "ٹی ٹی پی، ٹی ٹی پی جماعت الاحرار اور داعش ملک میں ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے کر رہے ہیں"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "فروری میں، ملک میں دہشت گردانہ حملوں میں قابلِ قدر اضافہ دیکھا گیا جن میں درجنوں عام شہری اور سیکورٹی کے اہلکار ہلاک ہوئے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ عسکریت پسندوں نے صرف ایک ماہ میں ہی 40 حملے کیے جن میں چھہ خودکش حملے بھی شامل ہیں تاکہ سیکورٹی کو نقصان پہنچایا جا سکے۔

آپریشن ردالفساد میں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں

خان نے کہا کہ فروری میں دہشت گردوں کے حملوں میں اضافے سے 163 افراد ہلاک ہوئے جن میں 118 عام شہری، سیکورٹی کے 22 اہلکار اور 23 عسکریت پسند شامل تھے۔

انہوں نے آپریشن ردالفساد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "اس نے فوج کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ملک کے اندر اور پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں چھپے ہوئے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک نئے آپریشن کا آغاز کریں"۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں 22 فروری سے، آپریشن ردالفساد کے آغاز کے ساتھ ہی، سیکورٹی فورسز نے نہ صرف دہشت گردی کی تازہ لہر کا خاتمہ کیا بلکہ "بدنامِ زمانہ دہشت گرد تنظیموں کے درجنوں ارکان کو ہلاک بھی کیا"۔

گل نے اس بات سے اتفاق کیا کہ 2017 کے آغاز میں دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں تھوڑی دیر کے لیے آنے والے اضافے کے باوجود،عسکریت پسندوں کے خلاف کامیابیاں جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "فوجی آپریشن ردالفساد کے آغاز کے بعد، ملک کے مختلف حصوں میں انٹیلیجنس کی بنیاد پر کیے جانے والے آپریشنز میں روزانہ مزید عسکریت پسند ہلاک اور گرفتار ہوئے ہیں"۔

خان نے سیکورٹی فورسز پر زور دیا کہ وہ "عسکریت پسندی کو کچلنے اور امن اور قانون کی حکمرانی کو بحال کرنے کے لیے انٹیلیجنس کی بنیاد پر آپریشنز کو مزید تیز کریں"۔

داعش، ٹی ٹی پی کے خلاف متحد ہونا

کراچی کے اردو زبان کے اخبار ڈیلی پاکستان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر مبشر میر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "داعش، ٹی ٹی پی اور دیگر عسکریت پسند گروہ نہ صرف بے گناہ شہریوں اور سیکورٹی کے اہلکاروں کا خون بہا رہے ہیں بلکہ معاشرے میں بدامنی اور انتشار پھیلا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور ان کے بین الاقوامی ساتھیوں کو داعش اور علاقے میں کام کرنے والے گروہوں کا خاتمہ کرنے کے لیے لازمی طور پر مل کر کام کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان اور افغانستان نے دہشت گردی کی لعنت کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون کرنے پر اتفاق کیا ہے اور بین الاقوامی راہنماؤں کو ان ممالک پر دباو ڈالنا چاہیے کہ وہ دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کا خاتمہ کرنے کے لیے اکٹھے ہو جائیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن ردالفساد انجام دیتے ہوئے، سیکورٹی افواج کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ نہ تو عسکریت پسند اور نہ ہی ان کے سہولت کار، سرمایہ کار اور حامی پاکستان میں پناہ گاہیں ڈھونڈ سکیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ مباحثہ کے لیے نہایت معلوماتی موضوع ہے اور ہمیں یہ اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ رہنے کے لیے دہشتگردی سے پاک ایک پرامن ماحول اور ان عالمی سرگرمیوں میں شرکت کی جانب جائے گا جو دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ شکریہ نعیم صدیقی

جواب