سلامتی

پاکستانی سیکورٹی فورسز نے ہلاکتوں میں کمی دیکھی ہے

جاوید محمود

کراچی میں ایک پاکستانی پولیس افسر 22 فروری کو اس طالبان عسکریت پسند کی لاش دیکھ رہا ہے جسے سیکورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا تھا۔ پاکستانی فورسز نے انسدادِ دہشت گردی کے آپریشن ردالفساد کا اس دن آغاز کیا تھا۔ ]رضوان تبسم/ اے ایف پی[

کراچی میں ایک پاکستانی پولیس افسر 22 فروری کو اس طالبان عسکریت پسند کی لاش دیکھ رہا ہے جسے سیکورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا تھا۔ پاکستانی فورسز نے انسدادِ دہشت گردی کے آپریشن ردالفساد کا اس دن آغاز کیا تھا۔ ]رضوان تبسم/ اے ایف پی[

اسلام آباد - ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز ہلاکتوں میں کمی دیکھ رہی ہیں کیونکہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی مہمات نے ان کی فوجیوں کو نشانہ بنانے کی اہلیت میں بہت زیادہ کمی کر دی ہے۔

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیکورٹی فورسز کے عملے میں ہلاکتوں کی تعداد 10 سال میں کم ترین سطح تک گر گئی ہے۔

ساوتھ ایشیاء ٹیررازم پورٹل (ایس اے ٹی پی) کے مطابق، ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد میں کمی 2010 سے ہونا شروع ہوئی جو کہ2009 میں 991 کی انتہائی زیادہ تعداد پر تھی اور 2016 میں یہ کم ہو کر 293 ہو گئی۔

تجزیہ نگار ان ہلاکتوں میں کمی کا سہرا وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) اور خیبر پختونخواہ (کے پی) میں کیے جانے والی فوجی آپریشنز اور اس کے ساتھ ہی پولیس، فرنٹیئر کور (ایف سی) اور رینجرز کے آپریشنز کے سر باندھتے ہیں جن میں ملک کے دوسرے حصوں میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا۔

فاٹا کے سابقہ سیکورٹی سیکریٹری برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ، جن کا تعلق پشاور سے ہے، کے مطابق تمام سیکورٹی فورسز میں سے فوج کو سب سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرفجنوبی وزیرستان میں ہی، گزشتہ دو سالوں کے دوران انسدادِ دہشت گردی کے آپریشنز میں تقریبا 700 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "فوج کے بعد (تعداد کے لحاظ سے) کے پی، فاٹا، سندھ اور بلوچستان میں پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں نے عسکریت پسندی کے خلاف جنگ اور دہشت گردانہ حملوں میں جانوں کی قربانی دی ہے مگر اس بارے میں درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں"۔

ایس اے ٹی پی کے انیس مارچ کو حاصل کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق، 2003 سے اب تک، سیکورٹی کے 6,710 اہلکار دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس دورانیے میں دہشت گردی سے متعلقہ واقعات میں ہلاک ہونے والے 61,885 افراد میں 21,642 شہری اور 33,533 عسکریت پسند شامل ہیں۔

فوجی کامیابیوں کو مستحکم کرنا

شاہ نے کہا کہ "فوجی آپریشن ضربِ عضب اور دوسرے آپریشنز نے پاکستان میں دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے، پناہ گاہوں اور تربیتی مراکز کو تباہ کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں کچھ عسکریت پسندوں کو افغانستان اور دونوں ممالک کے درمیان موجود سرحدی علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن ردالفساد کا آغاز فروری میں کیا گیا تاکہ "گزشتہ مہمات سے حاصل ہونے والے نتائج کو مستحکم کیا جا سکے اور ملک کے اندر اور افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں چھپے ہوئے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا جا سکے"۔

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے بھی ردالفساد کے ساتھ انٹیلیجنس کی بنیاد پر کیے جانے والے آپریشنز کو تیز کر دیا ہے جس سے عسکریت پسندوں کی صلاحیتوں میں مزید کمی ہوئی ہے۔

اسلام آباد کے تھنک ٹینک، سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امتیاز گل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "طالبان اور دوسرے عسکریت پسندوں کے خلاف سیکورٹی کے اہلکاروں کی سخت حکمتِ عملی نے انہیں اس حد تک کمزور کر دیا ہے کہ وہ ماضی کی طرح اب سیکورٹی فورسز پر حملے نہیں کر سکتے ہیں"۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ 2017 میں سیکورٹی کی صورتِ حال مزید بہتر ہونے کی توقع ہے مگر دہشت گردی کے اکا دکا واقعات" ہو سکتے ہیں۔

سیکورٹی کو 2017 میں بہتر بنانا

کراچی سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ کار کرنل (ریٹائرڈ) مختار احمد بٹ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "دسمبر 2014 پاکستان کے لیے تاریک ترین اور ہلاکت خیز ترین دن تھا جب سات دہشت گردوں نے پشاورمیں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا"۔

بٹ نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملے کے بعد، جس میں 140 سے زیادہ بچے اور اساتذہ ہلاک ہوئے، اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا جس کا مقصد سیکورٹی افواج اور عوام پر دہشت گردوں کے حملوں کو کم سے کم کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ "فوج کے اقدامات اس قدر فوری اور زبردست تھے کہ عسکریت پسندوں کو افغانستان کے ساتھ کے سرحدی علاقوں سے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا"۔

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی افواج کی چوکسی اورپاکستان اور افغانستان کی سرحدپر سرحدی انتظام کے ایک نظام کو متعارف کروانے سے عسکریت پسندوں کی سخت اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کمزور ہو گئی ہے۔

تاہم، آپریشن ردالفساد کے تحت، 145 سے زیادہ عسکریت پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کو تقریبا ایک ماہ کے دورانیے میں ہلاک کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اگر افغانستان کے ساتہ سرحدی انتظام اور انٹیلیجنس کو مزید بہتر بنایا جا سکے تو اس سے عسکریت پسندی کی شدت میں کمی آئے گی اور 2017 میں پاکستان میں سیکورٹی کی صورتِ حال میں بہتری آئے گی"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500