سیاست

پاکستان میں مردم شماری کا سیاست، اقتدار پر اثرانداز ہونا متوقع

اے ایف پی اور سٹاف

اسلام آباد میں 13 مارچ کو ایک پاکستانی 2017 کی مردم شماری کا اعلان کرتے بینروں کے پاس سے گزر رہا ہے۔ پاکستان سنہ 1998 کے بعد اپنی پہلی مردم شماری کروا رہا ہے۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

اسلام آباد میں 13 مارچ کو ایک پاکستانی 2017 کی مردم شماری کا اعلان کرتے بینروں کے پاس سے گزر رہا ہے۔ پاکستان سنہ 1998 کے بعد اپنی پہلی مردم شماری کروا رہا ہے۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

اسلام آباد -- اس ہفتے پاکستان اقتدار کی بنیاد اور وفاقی فنڈنگ کے بارے میں سیاسی نوک جھونک کے کئی برسوں بعد، لگ بھگ دو دہائیوں میں اپنی پہلی مردم شماری کروانے کے بڑے کام کا آغاز کرے گا۔

تیزی سے بڑھتا ہوا پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے، جس میں اندازاً 200 ملین نفوس آباد ہیں، لیکن اس نے ہر دس سال بعد مردم شماری کے آئینی تقاضے کے باوجود، سنہ 1998 کے بعد سے مردم شماری نہیں کروائی۔

سنہ 1998 کی مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 132 ملین نفوس سے زیادہ معلوم ہوئی تھی۔

مردم شماری کے عمل کا آغاز بدھ (15 مارچ) کو ہو گا اور 300،000 سے زائد عام شہریوں اور افواج پر مشتمل ٹیم تعینات ہو گی اور 55 ملین فارم شامل ہوں گے۔

یہ سیاسی حلقہ بندیوں، پارلیمانی نشستوں کی تفویض اور وفاقی فنڈنگ پر نظرِ ثانی کے لیے بنیاد بنے گی، جبکہ مسلمان اکثریتی ملک میں مذہبی اقیلتوں کی تعداد کی ایک واضح تصویر پیش کرے گی نیز پہلی بار خواجہ سراؤں کی آبادی کو شمار کرے گی۔

مردم شماری دو مراحل میں ہو گی: 15 مارچ تا 15 اپریل اور 25 اپریل تا 25 مئی۔ نتائج جولائی کے اختتام تک آنا متوقع ہیں۔

اقتدار اور سیاست

مردم شماری ایک حساس معاملہ ہے، جو قومی پارلیمانی انتخابات سے ایک سال پہلے ہو رہی ہے۔

فری اینڈ فیئر الیکشنز نیٹ ورک پر پروگراموں کے سربراہ، مدثر رضوی نے اے ایف پی کو بتایا، "پاکستان میں آبادی یکساں نہیں ہے۔ یہاں کئی نسلیں ہیں؛ 80 سے زائد مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مردم شماری ۔۔۔ مختلف نسلوں کے لیے سیاسی طاقت کا تعین کرتی ہے۔"

طاقتور صوبہ پنجاب دیگر صوبوں کی نسبت اپنی آبادی کے کم رفتار سے بڑھنے کے نتیجے میں اپنی سیاسی گرفت کمزور پڑتے دیکھ سکتا ہے۔

رضوی نے کہا، "سیاسی اداکاروں کے لیے یہ ایک خوش آئند مشق نہیں ہے۔ یہ صرف ۔۔۔ سپریم کورٹ کے احکامات ہیں کہ یہ مشق انجام دی جا رہی ہے۔"

بہت سی برادریوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے، شہریوں کو مادری زبان کے لیے اختیار کے طور پر صرف نو زبانیں دی جا رہی ہیں۔

مردم شماری مذہبی اقلیتوں، خصوصاً عیسائیوں اور ہندوؤں کے حجم کے بارے میں بصیرت فراہم کرے گی۔ اندازے متنازعہ اور بہت مختلف ہیں، جن کی حد اول الذکر کے لیے 2 سے 10 ملین اور مؤخر الذکر کے لیے 4.5 ملین ہے۔

شہری خود کو مسلمان، عیسائی، ہندو یا احمدی -- ایک فرقہ جسے ریاست کی جانب سے مرتد تصور کیا جاتا ہے -- یا "دیگر" بتا سکتے ہیں۔

شہریوں کے پاس اپنی جنس کے لیے تین انتخاب ہوں گے: مرد، عورت اور خواجہ سرا۔

ایک اور سوال گھرانے سے پوچھتا ہے کہ ان کے ہاں کتنے بیت الخلاء ہیں -- خصوصاً پاکستان میں یہ ایک اچھوتا سوال ہے، جہاں اقوامِ متحدہ کے تخمینے کے مطابق 40 فیصد کی تعداد تک لوگوں کے پاس اندرونِ خانہ پلمبنگ کی قلت ہے، جس کے صحت، خصوصاً بچوں کی صحت کے لیے سنگین نتائج ہیں۔

عجلت میں تیاریاں

اس سال تک سیاسی ارادے کی قلت کے نتیجے میں تیاریاں عجلت میں کی جا رہی ہیں۔

پاکستانی ادارہ برائے شماریات (پی بی ایس) 10 برس سے تیار رہا ہے، لیکن حکومت نے تین ماہ سے کم عرصہ قبل انہیں سبز جھنڈی دکھائی ہے، جسے سے پی بی ایس کو عملے کو تربیت دینے اور جماعتوں اور علاقوں کو یقین دہانی کروانے کے لیے کم وقت ملا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے آبادی فنڈ کے ملکی ڈائریکٹر، حسن محتشمی نے اے ایف پی کو بتایا، "وقت بہت محدود تھا ۔۔۔ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ہر کوئی خود کو گنے جانے کی اہمیت کو محسوس کرے۔"

پاکستان میں بہت سے لوگ ناخوش ہیں کہ اندازاً دو ملین افغان مہاجرین، جن کے پاس اکثر جعلی دستاویزات ہوتی ہیں، پشتون پاکستانی کے طور پر گنے جا سکتے ہیں، جس سے میزان بگڑ جائے گا۔

ملک کے سب سے کم آبادی والے صوبے، بلوچستان میں، ایک قوم پرست جماعت نے مردم شماری کو "خودکشی" کے مترادف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کیونکہ پشتونوں کی آمد -- پاکستان کے دیگر حصوں نیز افغانستان دونوں سے -- خود اپنے ہی خطے میں بلوچ نسل کے لوگوں کو ایک اقلیت بنا سکتی ہے۔

فوج کی نگرانی میں

پی بی ایس 119،000 افراد کو تعینات کرے گا، بشمول 84،000 شمارکنندگان: اساتذہ اور مقامی حکام جو گھرانوں اور پھر افراد کو گننے کے لیے گھر گھر جائیں گے۔

پاکستانی فوج نے اعلان کیا ہے کہ یہ اس عمل کے لیے 200،000 فوجی بھیجے گی، جن میں سے 44،000 براہِ راست مردم شماری کرنے اور ایک متوازی شمار بنانے میں شرکت کریں گے۔

پی بی ایس کے ماہرینِ شماریات کے سربراہ آصف باجوہ نے کہا کہ فوج کسی بھی غلط شمار کو روکنے کے لیے بطور "مبصرین" کام کرے گی۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "ایک مقامی باشندے کے شمار کنندہ بننے پر دباؤ کا شک ہو سکتا ہے، کیونکہ ہر کسی کو معلوم ہے کہ ایک زیادہ آبادی کا مطلب ہے زیادہ ملازمتیں، زیادہ نشستیں اور صوبے کے لیے زیادہ پیسہ۔" انہوں نے مزید کہا کہ گنتی کرنے والے ہر فرد کے ساتھ ایک فوجی "سایہ" ساتھ ہو گا۔

انتظامات نے اقوامِ متحدہ کے لیے کچھ بے چینی پیدا کی ہے، جسے متوازی اعداوشمار جمع کرنے والوں کے طور پر فوج کے کردار کے بارے میں تحفظات ہیں۔

محتشمی نے کہا، "مردم شماری کے دوران کسی بھی قسم کا دوسرا سوالنامہ پُر کروانا رازداری کے اصولوں کی [خلاف ورزی] ہے۔"

پشاور کیپیٹل سٹی پولیس افسر محمد طاہر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پشاور، خیبرپختونخوا (کے پی) میں ہی، "تقریباً 3،500 پولیس افسران اور ایف سی [فرنٹیئر کور] کے ارکان اور 4،500 سے زائد فوجی" مردم شماری کی ٹیموں کی حفاظت کریں گے۔

کے پی میں تیاریاں

پشاور کے تاجر عزیز احمد جیسے کے پی کے مکین بے چینی سے نتائج کے منتظر ہیں۔

مردم شماری زائد المعیاد ہو چکی تھی، کا اضافہ کرتے ہوئے احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ مردم شماری کے اعدادوشمار "وسائل اور سہولیات کی تقسیم میں مددگار ہوں گے۔"

دریں اثناء، نواحی پشاور سے ایک مقامی ناظم، نذیر محمدنے عوام کو ترغیب دی کہ "جب محافظ ٹیموں کو دیکھیں تو پریشان نہ ہوں۔"

انہوں نے کہا، "لوگوں کو لازماً درست معلومات مہیا کرنی چاہیئیں اور خاندان کے سربراہ کا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ پاس رکھنا چاہیئے،" انہوں نے مزید کہا کہ کے پی کے منتخب حکام مردم شماری کرنے والے شمارکنندگان کے ساتھ بطور رضاکار کام کریں گے کیونکہ حکام اپنے علاقوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔

[پشاور سے جاوید خان نے اس رپورٹ میں حصہ لیا]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

مشرقِ وسطیٰ اور دنیا کے دیگر مقامات پر کام کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے نام مردم شماری میں شمار نہیں ہیں۔ وہ اہلِ خانہ سمیت یا اہلِ خانہ کے بغیر صرف ملازمت کے لیے بیرونِ ملک جا چکے ہیں۔ وہ ہر برس یا دوبرس بعد پاکستان آتے ہیں۔ ان کا نام مردم شماری میں درج ہونا چاہیئے بصورتِ دیگر مردم شماری میں درست آبادی کی عکاسی نہ ہو گی۔

جواب

Balochistan me abad panahgeer afghanee ko vote dene ka haq nahi ha baloch mehman nawazi ka galat faida othaya afghanion ne khas kar mehmood achakzai jo k khod panah gozeen afghani ha 6000000 lakh afghanipn ko balochistan me vote bank badane ka soch raha ha leken baloch sar zameen per 60000000 lakh afghani qabool nahi ye log foran afhhanistan ya k p k me chale jain jaha sare afghani rehte hain baloch ne bohat mehman nawazi ki ab en 6000000 lakh afgani mehmood achak zai sameth afghanistan jakar baloch qaoum ka shukrya ada karna chahie.

جواب