معیشت

پاکستان شمالی وزیرستان کی تعمیرِنو کر رہا ہے، اب 'عسکریت پسندی' سے آزاد ہے

سید انصار عباس

خیبرپختونخواہ (کے پی) کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا (دائیں سے چوتھے) فروری میں میران شاہ میں ایک جرگے میں شرکت کر رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان، افواج کی طرف سے عسکریت پسندوں کو قبائلی ایجنسی سے نکالے جانے کے بعد، بحال ہو رہا ہے۔ ]بہ شکریہ سید انصارعباس[

خیبرپختونخواہ (کے پی) کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا (دائیں سے چوتھے) فروری میں میران شاہ میں ایک جرگے میں شرکت کر رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان، افواج کی طرف سے عسکریت پسندوں کو قبائلی ایجنسی سے نکالے جانے کے بعد، بحال ہو رہا ہے۔ ]بہ شکریہ سید انصارعباس[

پشاور -- قبائلی بزرگ اور حکام فروری میں پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے گروہ کو یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کر رہے تھے کہ شمالی وزیرستان ایجنسی پرامن اور عسکریت پسندی سے پاک ہے۔

بہت سے رہائشیوں کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر جانے پر مجبور ہونا پڑا تھا جب کہ افواج عسکریت پسندوں سے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں جنگ کر رہی تھیں۔ اس کا آغاز جون 2014 میں ہوا جب فوج نے آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا۔

رہائیشوں کا کہنا ہے کہ سالوں تک عارضی طور پر بے گھر ہو جانے والے افراد کے طور پر رہنے کے بعد، وہ واپس ایک پرامن شمالی وزیرستان کو لوٹے ہیں جو کہ عسکریت پسندوں، ہتھیاروں اور خوف سے آزاد ہے۔

ہورماز گاوں سے تعلق رکھنے والے پچپن سالہ انجینئر فیاض داور نے کہا کہ "ہم بنیادی ضروریات کی کمی میں زندہ رہ سکتے ہیں مگر امن کے بغیر نہیں"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پاکستانی فوج کا شکریہ جو علاقے میں امن کو واپس لائی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ ضربِ عضب سے پہلے، کوئی علاقے میں گھومنے پھرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ "دوسرے مسائل سے نپٹا جا سکتا ہے مگر امن و امان کی صورت حال سے نہیں"۔

سیکورٹی کو قائم رکھنے کا عزم

انتشار کے دوبارہ پھیلنے کو روکنے کے لیے، فوج ہتھیاروں کی ملکیت پر پابندی نافذ کر رہی ہے۔

میر علی کے صحافی رسول داور نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "فوج نے ہتھیاروں کی ملکیت پر سخت پابندی لگائی ہے۔ کچھ قبائلی افراد نے تو اپنے ہتھیار رضاکارانہ طور پر فوج کے حوالے کر دیے ہیں"۔

قبائلی ارکان، جن میں سے کچھ آٹھ سالوں سے گھروں سے بے دخل ہیں، وہاں پر امن کی بحالی سے دنگ رہ گئے ہیں جہاں کبھی دہشت گردی اور انتشار پھیلا ہوا تھا۔

میر علی کے قریب، پتیسی اڈا سے تعلق رکھنے والے چائے فروش عظیم خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم یقین نہیں کر سکتے کہ یہ وہی ایجنسی ہے۔ ہم رات کو بھی بغیر خوف کے گھوم پھر سکتے ہیں"۔

ایک نوجوان ٹرانسپوٹر عظیم وزیر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اب وزیرستان میں کوئی قتل، بم دھماکے، اغوا یا کسی کی طرف سے دھمکیاں نہیں ملتی ہیں"۔

امن کے لیے قربانیاں

خیبرپختونخواہ (کے پی) کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا نے یکم فروری کو میران شاہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ایک جرگہ میں قبائلی عمائدین سے خطاب کرنے سے پہلے، نئے تعمیر شدہ اسٹیڈیم، اسکول اور مارکیٹ کا جائزہ لیا۔

جھگڑا نے کہا کہ میران شاہ اسٹیڈیم ملک بھر میں وہ واحد اسٹیڈیم ہے جس میں ہر کھیل کے لیے دو میدان ہیں جس میں کرکٹ، فٹ بال، باسکٹ بال، والی بال اور بیڈمنٹن شامل ہیں۔

انہوں نے جرگہ کو اسٹیڈیم، اسکولوں کی بہتری اور "مثالی" امن کو قائم رکھنے پر مبارک باد دی۔

جھگڑا نے کہا کہ "آپریشن ضربِ عضب کے باعث فاٹا میں امن بحال ہو گیا ہے۔ عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد میں سے نوے فیصد اپنے آبائی گھروں کو واپس آ گئے ہیں اور باقی کے جلد ہی واپس آ جائیں گے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ پوری قوم سیکورٹی افواج اور مقامی آبادی کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی جانے والی قربانیوں پر فخر کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ان قربانیوں نے فاٹا اور باقی کے ملک میں امن کو یقینی بنایا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو قبائلی افراد کے مصائب کا علم ہے اور وہ اسے سلسلے میں "اقدامات کر رہی ہے"۔

جھگڑا نے اس سے پہلے میران شاہ میں گورنمنٹ ماڈل اسکول میں لڑکیوں کا سیکشن قائم کرنے اور میر علی سب ڈویژن میں لڑکیوں کے لیے گرلز کالج اور گورنر ماڈل اسکول برائے طالبات قائم کرنے کا اعلان کیا۔

میر علی سے تعلق رکھنے والے بزرگ ملک گل صالح جان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میں گورنر کی طرف سے قصبے میں کالج اور اسکول قائم کرنے کے اعلان کو سراہتا ہوں"۔

پاکستان مارکیٹ جس میں ڈیڑھ سو دکانیں ہیں، بھی بنائی گئی ہے جس کے ساتھ بچوں کا کھیل کا میدان، پارکنگ لاٹ اور مسجد بھی ہے۔

میران شاہ سے تعلق رکھنے والے دکان دار سید حلیم جنہیں نئے بازار میں دکان الاٹ کی گئی ہے، نے کہا کہ وہ مستقبل کے لیے پرامید اور خوش ہے۔

تجارت، معیشت کی بحالی

حکومت نے بھی شمالی وزیرستان میں امن کی بحالی کے بعد، غلام خان سرحدی کراسنگ پر سے افغانستان کے ساتھ تجارت کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

شمالی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کامران آفریدی نے دورہ کرنے والے اخباری نمائندوں کو میران شاہ میں بتایا کہ "اس راستے کو چند دنوں میں کھول دیا جائے گا کیونکہ اس مقصد کے لیے تمام انتظامات کر لیے گئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "غلام خان روٹ جو کہ شمالی وزیرستان کو افغانستان کو خوست صوبہ سے ملاتا ہے، تجارت کے لیے بند رہا ہے مگر اب اندرونِ ملک بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) کی نو آبادکاری کے لیے جاری کوششوں کے حصہ کے طور پر یہ دوبارہ سے کھل جائے گا"۔

کامران نے کہا کہ معیشت کو صرف عمارتوں کی تعمیر سے بحال نہیں کیا جا سکتا۔

کامران نے کہا کہ "تجارت انتہائی ضروری ہے اس لیے ہم غلام خان گاؤں میں ٹرمینلز کی تعمیر کا انتظار نہیں کریں گے۔ ہم چھوٹے پیمانے پر تجارت سے آغاز کر دیں گے"۔

انہوں نے کہا کہ کام کو شروع کرنے کے لیے ہر روز دس ٹرک اس روٹ سے گزریں گے۔

انہوں نے کہا کہ "افغانستان کے ساتھ تجارت کو بحال کرنے سے شمالی وزیرستان میں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور کاروبار کو فروغ ملے گا "۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیٹیکل انتظامیہ، فوج اور کسٹم کے شعبے کو تعینات کیا جائے گا جو بنوں اور غلام خان کی چیک پوسٹوں پر گزرنے کے اجازت نامے جاری کریں گے۔

بنیادی ڈھانچے کی مرمت

کامران نے کہا کہ اس کے علاوہ، ایک سروے ٹیم جو کہ سیاسی انتظامیہ کے اہلکاروں، فوج اور دوسری ایجنسیوں پر مشتمل ہے، نے گھروں اور دوسری املاک کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لینا شروع کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "تباہ ہونے والے گھر کے لیے 400,000 اور جس گھر کو نقصان پہنچا ہے اسے 160,000 کا معاوضہ دیا جائے گا"۔

انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے علاقوں میں آب پاشی کے نظام کی تعمیرِ نو کر دی گئی ہے اور "ہم نے کسانوں میں بیج تقسیم کیے ہیں"۔

پتیسی اڈا کے قریب اسوری گاوں کے ایک کسان امجد داور نے حکومت پر زور دیا کہ وہ مزید کام کرے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس وقت ہمیں آب پاشی کے لیے پانی کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ کو نہروں کی مرمت کرنی چاہیے تاکہ وادی کو امن کی طرح سر سبز کیا جا سکے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے افغانستان سے دہشتگردوں کے داخلے کو مسدود کرنے کا سرحدی انصرام ایک بڑا چیلنج ہے۔

جواب