پشاور -- 2 مارچ کو پاکستان نے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کو مرکزی سیاسی دھارے میں لانے کے منصوبوں کی منظوری دی۔
تبدیلی، جو اگر مؤثر ہو جاتی ہے، فاٹا کی حیثیت -- جس کی تاریخ استعماری دور تک جاتی ہے -- کو افراد کے لیے چند ایک حقوق اور وفاق کی براہِ راست حکمرانی کو ختم کر دے گی۔
یہ اقدام فاٹا اصلاحات کمیٹی (ایف آر سی) کی جانب سے 8 نومبر کو کی گئی سفارشات کا نتیجہ ہے۔ کمیٹی کے ارکان نے سفارشات مرتب کرنے سے قبل قبائلی نمائندگان سے مشاورت کی تھی۔
حکومت کی چھ رکنی اصلاحات کمیٹی کے سربراہ اور وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے پرانے رفیق، سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں کہا، "کابینہ نے فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کی اصولی منظوری دے دی ہے۔"
پُرعزم منصوبے
منصوبہ فاٹا کو پانچ برس کے عرصے میں ہمسایہ صوبے خیبرپختونخوا (کے پی) میں ضم کرنے کو کہتا ہے، جبکہ کچھ کلیدی اصلاحات جیسے کہ اجتماعی سزا کا خاتمہ اور پاکستانی عدالتوں کی حکمرانی میں توسیع میں برسوں کی بجائے مہینے لگیں گے۔
اجتماعی سزا دینا، جو کئی دہائیوں سے قبائلیوں کے لیے ایک تکلیف دہ امر تھا، بدنامِ زمانہ فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) کا حصہ ہے، جسے تاجِ برطانیہ نے نافذ کیا تھا۔ ایف سی آر ایک فرد کے افعال کے لیے ایک خاندان یہاں تک کہ ایک پورے قبیلے کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
اب پارلیمان تجاویز پر غور کرے گی؛ اگر اسے یہ قابلِ اتفاق لگتا ہے، یہ ایک آئنی ترمیم پاس کرنے کی کوشش کرے گی۔
عزیز نے کہا کہ اگر اصلاحات کا منصوبہ پاس ہو جاتا ہے، تو فاٹا 2018 میں کے پی اسمبلی میں اپنے نمائندے منتخب کرنے کے قابل ہو گا۔
مزید برآں، وفاقی حکومت ایف سی آر کو منسوخ کر دے گی اور اسے رواج کا قانون برائے قبائلی علاقہ جات سے تبدیل کر دے گی، جو اجتماعی ذمہ داری سے متعلقہ شرائط کو حذف کرتا ہے۔
مزید، قومی مالیاتی کمیشن کی جانب سے فاٹا قیام پذیر ترقیاتی منصوبے کے اطلاق کے لیے 3 فیصد سالانہ مجموعی وفاقی محاصل مختص کرنے پر غور کرنا متوقع ہے۔
یہ حصہ وہ محاصل ہیں جو غربت ختم کرنے کے لیے پورے ملک میں تقسیم کے لیے دستیاب ہیں۔
سفارشات میں تمام اندرونِ ملک بے گھر افراد کی واپسی کے لیے 30 اپریل کی ہدف تاریخ شامل ہے اور واپسی کے عمل کی تکمیل کے لیے آزمائشی حتمی عرصہ 2018 مقرر کیا گیا ہے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق سرتاج عزیز نے کہا، "قبائلی عوام محبِ وطن ہیں اور پاکستان سے پیار کرتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ان کے احساسِ محرومی کو ختم کرنے کے لیے قبائلی عوام کو مرکزی دھارے میں لایا جائے۔"
سات قبائلی ایجنسیوں -- باجوڑ، کرم، مہمند، شمالی وزیرستان، اورکزئی اور جنوبی وزیرستان -- میں تقریباً آٹھ ملین نفوس بستے ہیں، جو کہ زیادہ تر نسلی پشتون ہیں۔
قبائلی خطے میں جمہوریت لانا
مقامی سیاستدانوں اور فعالیت پسندوں کا کہنا ہے کہ قبائلی آبادی حکومت کے فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کے منصوبے کا خیر مقدم کرتی ہے اور اسے خطے کو جمہوری بنانے کے لیے ایک ناگزیر اقدام کے طور پر دیکھتی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) جماعت کے فاٹا شاخ کے رابطۂ کار، اقبال آفریدی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہ حکومت کی جانب سے ایک اعتراف ہے کہ خطے کو عسکریت پسندی سے پاک کر دیا گیا ہے اور مستقبل میں شرپسندوں کو قدم جمانے کی جگہ نہ دینے کے لیے اسے جمہوری بنانے کی ضرورت ہے۔"
اقبال نے اس امید کا اظہار کیا کہ فاٹا کو مرکزی دھارے میں لانا شراکتی حکمرانی کے ایک دور کے لیے دروازے کھولے گا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی نائب صدر برائے کے پی عمران آفریدی نے کہا، "عوام نچلی سطح پر انتخابات اور دیگر سرگرمیاں دیکھنے مشتاق ہیں۔"
فاٹا میں طویل عرصے سے رائج حکمرانی کے نظام کے تحت، وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ سیاسی ایجنٹ قبائلی ایجنسیوں کو چلاتے ہیں۔
آفریدی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ماضی میں، عسکریت پسندوں کے پاس اپنی غیر قانونی حکمرانی کو مضبوط کرنے اور اپنے مکروہ عزائم کو آگے بڑھانے کے مواقع تھے کیونکہ ہمارے پاس بیرونی دنیا تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے مناسب فورم کمیاب تھا۔"
انہوں نے کہا کہ جب سے حکومت نے اصلاحات متعارف کروانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے، اس اقدام کی حمایت میں عوامی اجتماعات اور ریلیوں کا سلسلہ منعقد ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا، "لوگ عسکریت پسندی سے اکتا چکے ہیں اور ایک جمہوری نظام چاہتے ہیں۔ ہمارے عوام نے باغیوں کی جانب سے برپا کی گئی سنگدلی دیکھی ہے اور وہ اس [سابقہ] دور میں واپس نہیں جانا چاہتے بلکہ عسکری کارروائی کے ذریعے قائم کیے گئے امن کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔"
تبدیلی، تیز رفتار اصلاحات کے متلاشی
جبکہ تمام سیاسی جماعتوں نے فاٹا کے کے پی کے ساتھ انضمام یا اسے مرکزی دھارے میں لانے کا خیرمقدم کیا ہے، کچھ اس عمل کو 2018 سے پہلے نافذ کرنے کی خواہشمند ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنماء شاہ فرمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم حکومتی اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن اسے اگلے عام انتخابات سے پہلے ہونا چاہیئے۔ انضمام کے لیے پانچ برس کا عرصہ دینا حکومتی نیت پر شکوک پیدا کرتا ہے۔"
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماء، سید اخوندزادہ چٹان نے کہا کہ قبائلی عوام اصلاحات کے نفاذ پر خوش ہیں لیکن منصوبے کے اطلاق کی طوالت پر غیر مطمئن ہیں۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "میری جماعت اصلاحات کے پروگرام کی حمایت کر رہی ہے لیکن اس کے عرصے سے متفق نہیں ہے۔"
انہوں نے کہا، "لوگ فاٹا میں تبدیلی چاہتے ہیں کیونکہ زمینی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ کے پی میں اس کا انضمام اسے مرکزی دھارے میں لانے اور طالبان جنگجوؤں کو ہمیشہ کے لیے شکست دینے کا واحد راستہ ہے۔"
انہوں نے کہا، "طالبان فاٹا میں جمہوریت لانے کے کسی بھی منصوبے کے مخالف ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ طاقت کے شدید استعمال کے ذریعے حکمرانی کی ہے۔"
چٹان نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں تشدد کے خاتمے اور ترقی کو تیز کرنے کے طریقے کے طور پر اصلاحات کی ضرورت پر متفق ہیں۔
انہوں نے کہا، "سماجی و معاشی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے اور غربت اور بیروزگاری کو کم کرنے کے لیے، ایک خصوصی کمیٹی فاٹا کے لیے ایک دہائی طویل ترقیاتی منصوبہ تیار کرے گی۔
عوام کو با اختیار بنانا
پشاور کے مقامی ایک آزاد دفاعی تجزیہ کار، خادم حسین نے کہا، "جماعتی بنیادوں پر مقامی انتخابات کروانے کا منصوبہ نچلی سطح پر عوام کو با اختیار بنانے کی طرف ایک حقیقی قدم ہے۔"
انہوں نے کہا کہ فی الوقت، قبائل وفاقی حکومت پر انحصار کرتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "جب لوگ اپنے نمائندے مقامی طور پر منتخب کریں گے، وہ خود کو با اختیار محسوس کریں گے۔"
انہوں نے کہا، "یہ [قبائلی علاقوں میں] ایک دیرپا امن کو یقینی بنائے گا۔"
حسین نے فاٹا میں دیوانی اور فوجداری دونوں امور میں جرگہ کے نظام کو برقرار رکھنے اور عدلیہ کی طرف سے فاٹا کے مکینوں کو بنیادی حقوق دینے کی تجویز کی حمایت کی۔
فاٹا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ایک عہدیدار، عارف اللہ مہمند نے کہا کہ مقامی آبادی نے دہشت گردی کے خاتمے لیے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں اور اسے خود اپنا سیاسی مستقبل رکھنے کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دہشت گردوں نے ہمارے سماجی تانے بانے، اسکولوں اور ہسپتالوں کو تباہ کر دیا ہے، اور ہمیں ہماری سرزمین پر مستقل امن قائم کرنے کے لیے جمہوری طور پر منتخب ایک حکومت کی اشد ضرورت ہے۔"
انہوں نے کہا، "جمہوریت متعارف کروانے کے ذریعے، ہم دہشت گردی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر سکتے ہیں۔ ہم صرف ایک منتخب حکومت کے ذریعے ہی تشدد کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔"