وفاقی حکومت نے پنجاب میں رینجرز کی ایک 60 روزہ تعیناتی کی منظوری دی ہے، جو بدھ (22 فروری) سے مؤثر ہو گئی ہے۔
گزشتہ دو ہفتوں میں پاکستان میں کئی خونریز دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔ دیگر کے علاوہ، ایک خود کش بم دھماکہ 16 فروری کو صوبہ سندھ میں ایک صوفی کے مزار پر ہوا جس میں درجنوں افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے، 15 فروری کو پشاور اور مہمند ایجنسی میں چار خودکش بمباروں نے حملے کیے، اور ایک اور خود کش بمبار نے 13 فروری کو لاہور میں بم دھماکہ کیا۔
وزارتِ داخلہ کے ترجمان سرفراز حسین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے تعیناتی کی درخواست کی منظوری دی۔
درخواست 19 فروری کو حکومتِ پنجاب کی جانب سے کی گئی تھی۔
بلند توقعات
مبصرین کو رینجرز سے توقع ہے کہ وہ دہشت گردی کے خطرے کو کم کرنے میں بڑا حصہ ڈالیں گے۔
پشاور کے مقامی دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پنجاب میں ان کی تعیناتی "یقیناً امن و امان کی بہتر صورتحال کی طرف لے جائے گی اور دہشت گردی کو ایک بڑا دھچکا پہنچائے گی۔"
شاہ نے کہا کہ کئی پاکستانی دفاعی محکمے انسدادِ دہشت گردی آپریشن رد الفساد میں شرکت کر رہے ہیں، جو فوج نے پورے ملک میں بدھ (22 فروری) سے شروع کر دیا ہے۔
فضائیہ، بحریہ، رینجرز اور پولیس بھی آپریشن میں شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ محکمے پورے ملک میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات بتانے والی مخبری پر مبنی رپورٹوں پر انحصار کریں گے۔
اس وقت پاکستان کئی دہشت گرد گروہوں -- تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جماعت الاحرار، لشکرِ جھنگوی اور "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) -- کے خلاف لڑ رہا ہے لیکن شاہ نے پیشین گوئی کی کہ آپریشن رد الفساد دہشت گردی کی حالیہ وباء کو تیزی کے ساتھ کم کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ فوج نے افغانستان سے پاکستان کے اندر کی جانے والی دہشت گردی کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے مخبری کے نظام کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
شاہ نے کہا کہ فوج انسدادِ دہشت گردی کے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کو پورے ملک میں مکمل طور پر نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
وفاقی حکومت نے دہشت گردوں کے ہاتھوں دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر 140 سے زائد بچوں اور اساتذہ کے قتلِ عام کے فوراً بعد این اے پی کے نفاذ کا حکم دیا تھا، لیکن کچھ مبصرین نے اس کوشش کی کاملیت پر سوالات اٹھائے تھے۔
عام شہریوں کو ہدف بنانا
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ حملوں میں عام شہریوں کی زیادہ شرح اموات کی ایک وجہ دہشت گردوں کی سخت جاں سیکیورٹی فورسز کا سامنا کرنے میں کمزوری ہے۔
ڈان کے لیے کام کرنے والے لاہور کے ایک مقامی دفاعی مصنف آصف چودھری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دہشت گردوں نے مایوسی کے عالم میں پنجاب میں عوام الناس کو ہدف بنانا شروع کیا ہے۔"
چودھری نے کہا کہ سنہ 2016 میں، حکومتِ پنجاب نے دہشت گردوں کی صفوں میں بہت سے دہشت گردوں کو گرفتار اور ہلاک کرتے ہوئے انہیں -- ان کے سابقہ اہداف -- سیکیورٹی فورسز اور تنصیبات پر حملے کرنے سے قاصر کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سنہ 2016 میں، پنجاب میں دہشت گرد حملوں کے بڑے واقعات انٹیلیجنس ایجنسیوں اور صوبائی پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی کی جانب سے کی گئی کئی کارروائیوں کی وجہ سے آٹھ سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔