دہشتگردی

پاکستان میں دہشت گردی اور تشدد کے خلاف جنگ میں جمہوریت حوصلہ افزا ثابت ہو رہی ہے

امداد حسین

4 جنوری کو اسلام آباد میں پاکستانی حزب اختلاف کے رہنما عمران خان (سی) سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد واپس جا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جدوجہد نے جمہوریت کے لئے اس کے عزم کو مضبوط کیا ہے۔ [فاروق نعیم/ اے ایف پی]

4 جنوری کو اسلام آباد میں پاکستانی حزب اختلاف کے رہنما عمران خان (سی) سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد واپس جا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جدوجہد نے جمہوریت کے لئے اس کے عزم کو مضبوط کیا ہے۔ [فاروق نعیم/ اے ایف پی]

اسلام آباد – تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ تشدد اور دہشت گردی سے گزشتہ 15 برسوں میں پاکستانیوں نے بہت نقصان اٹھایا ہے لیکن یہ صورتحال جمہوریت کے لئے ان کی حمایت متزلزل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق، ملک بھر میں 2003 سے 2017 کے دوران حملوں میں ہلاک ہونے والے تمام 61,545 افراد میں 21,526 شہری اور 6,600 فوجی شامل ہیں۔ بقیہ 33,000 عسکریت پسند اور دہشت گرد تھے۔

اس تشدد نے پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت، سیاست، ثقافت اور بین الاقوامی تعلقات کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ سال بتایا کہ دہشت گردی سے ہزاروں جانوں کے نقصان کے علاوہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں 12.3 ٹریلین روپیہ (118بلین ڈالر) کا نقصان اٹھایا ہے۔

دہشت گردی نے ملک بھر میں تباہی پھیلائی – معاشی مرکز کراچی اور جنوب میں بلوچستان اور شمال میں انفرا اسٹرکچر کو تباہ کر دیا۔

عوام پر عزم تھے

پھر بھی عوام نے بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے با وجود دیگر امکانات کو مسترد کر دیا جیسے آمریت وغیرہ اور وہ جمہوریت پر متحد تھے۔

پاکستان فارورڈ سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد کے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر، امتیاز گل نے کہا، "پاکستان میں دہشت گردی اور آمریت نے نہ صرف حکومت کے لیے مشکلات پیدا کیں بلکہ انھوں نے پاکستان کے بین الاقوامی تاثر کو متاثر کیا، جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری، تجارت، معیشت اور سب سے زیادہ ملک کے وقار کو نقصان پہنچا"۔

انھوں نے کہا، "بلاشک و شبہ نقصان بہت بڑا تھا اور اس نے جمہوریت پر اتفاق رائے میں کردار ادا کیا"۔

گل نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کی صدارت کے دوران پاکستانیوں کو بہت زیادہ تشدد سے گزرنا پڑا، جس نے پاکستان مسلم لیگ-نواز [پی ایم ایل-ن] کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ 1999 میں الٹا تھا اور وہ 2008 تک اقتدار میں رہا۔

ایک اتفاق رائے تشکیل پاتا ہے

میڈیا رپورٹس کے مطابق، 2004 اور 2009 کے درمیان پاکستان میں دہشت گردی اور تشدد کی لہر میں اضافہ ہوااور مشرف کی زیرِ قیادت حکومت طالبان کو سوات اور افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں پر قبضہ کرنے سے روکنے میں ناکام ہو گئی۔

اسلام آباد میں مقیم دفاعی تجزیہ کار جنرل [ریٹائرڈ] طلعت مسعود نے کہا کہ اس عرصے کے دوران پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوا اور یہ واضح ہو گیا کہ جمہوریت کے بغیر عسکریت پسندوں کو شکست دینا نا ممکن ہے۔

مسعود نے کہا کہ2007 سے 2013 تک آرمی چیف رہنے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے شمالی وزیرستان میں طویل عرصے سے درکار انسداد دہشت گردی کے اقدامات کو تعطل کا شکار کردیا، کیونکہ وہ اس فیصلے کی جمہوری طور پر رضامندی چاہتے تھے۔ قبائلی ایجنسی پاکستانی عسکریت پسندوں کا مرکزی گڑھ تھی۔

کیانی کے پیش رو،جنرل راحیل شریف"نے آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا[شمالی وزیرستان میں جون 2014 میں] جس کے لیے سیاسی جماعتوں کی متفقہ طور پر حمایت حاصل تھی"، مسعود نے مزید کہا۔

اسلام آباد کے صحافی طاہر خان جو دہشت گردی اور طالبان کے بارے میں لکھتے ہیں نے کہا کہ صرف جمہوریت پاکستان میں تشدد کا خاتمہ کر سکتی ہے۔

انھوں نے پاکستان فارورڈ سے گفتگو میں کہا، "شہریوں کے حادثوں اور نقصانات نے سیاسی جماعتوں اور بساط پر موجود کھلاڑیوں کو مجبور کیا کہ وہ جمہوریت کی ضرورت پر اتفاقِ رائے قائم کریں"۔

ایک تباہ کن ورثہ

شہریوں کا کہنا ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق (1978 تا 1988 تک صاحبِ اقتدار) جیسے سابق پاکستانی رہنماؤں نے بزورِ بازو حکمرانی کی اور ملک کو بد تر حال میں چھوڑا۔

1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ملک میں تین مرتبہ فوجی تسلط رہ چکا ہے۔

اسلام آباد کے ایک بزرگ شہری 65 سالہ جبّار نے کہا، ”ہم نے جنرل ضیاء الحق کے دور سے قبل پاکستانی معاشرہ میں بڑے پیمانے پر فرقہ ورانہ فسادات اور شدت پسندی نہیں دیکھی، جو کہ بالآخرملک میں تشدد میں کردار ادا کرنے والے عناصر ہیں۔“

مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایک سیاسیات دان ظاہر شاہ نے کہا کہ ایک جمہوری پاکستان کے لیے داخلی و خارجی عناصر نے کردار ادا کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”جمہوریت پر یہ حالیہ اتفاقِ رائے اس ملک کے لیے ایک بے مثال ترقی ہے، جس پر ایک طویل عرصہ تک آمر حکمرانی کرتے رہے، اور اس اقدام سے پاکستان میں ثقافت اور معاشرے پر طویل المعیاد اثرات مرتب ہوں گے۔ آگے چل کر ہم کئی دیگر جمہوری تبدیلیاں دیکھیں گے۔“

ان تبدیلیوں میں اداروں اور قانون کی عملداری کا استحکام شامل ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2013 میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک سویلین پاکستانی حکومت نے اپنی پانچ برس کی مدّت پوری کی۔

گل نے کہا کہ قبل ازاں چند سیاستدانوں اورجماعتوں نے عسکری مداخلت کی حمایت کی کیوںکہ یہ ان کے لیے اور ان کے مقاصد کے لیے موزوں تھی۔

تاہم مشاہدین اس بات پر متفق ہیں کہ اکثر سیاسی جماعتیں یہ ادراک کر چکی ہیں کہ عدم استحکام ہی نے دہشتگردی کو بڑھنے دیا اور یہ کہ جمہوریت ہی تشدد کے خاتمہ کا واحد ذریعہ ہے۔

مسعود نے کہا، ”جمہوریت نے بتدریج دہشتگردی اور شدّت پسندی کی حوصلہ شکنی کی ہے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بیابان میں مچھلی تلاش کرنا اسلام میں بے گناہ شخص جیسا نہیں مارنح

جواب