ماہرین نے دیارونا کو بتایا کہ گزشتہ سال "دولت اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کا شام اور عراق میں اختتام کا آغاز ہوا اور گروہ کو ایسے بہت سے علاقوں سے ہاتھ دھونے پڑے جو اس کے کنٹرول میں تھے۔ اس کے علاوہ اس کے بہت سے راہنما بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
گروپ کے تباہی میں تیزی اس کے زیرِ کنٹرول آخری دو اہم شہروں: شام میں الرقہ اور عراق میں موصل کو واپس لینے کے لیے شروع کیے جانے والے آپریشن سے آئی۔
دو سالوں کی سخت تیاریوں اور تربیت کے بعد، سترہ اکتوبر کو، مشترکہ عراقی افواج نے موصل پر دوبارہ سے قبضہ کرنے کے لیے ایک آپریشن کا آغاز کیا اور اس وقت سے لے کر اب تک شہر کے مشرق کے بڑے حصے کو واپس قبضے میں کر لیا ہے۔
شام کی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے پانچ نومبر کو فرات کا غضب نامی مہم کا آغاز کیا تاکہ داعش سے راقہ اور اس کے اندرونی علاقوں کو واپس لیا جا سکے۔
اس آپریشن کے پہلے مرحلہ کے نتیجہ میں الرقہ کے گرد دیہی علاقوں میں گاؤں اور فارموں کی بڑی تعداد کو آزاد کروا لیا گیا اور اس کا دوسرا مرحلہ جس کا آغاز 10 دسمبر کو ہوا تھا، اس وقت جاری ہے۔
یہ آپریشن الرقہ شہر کو الگ تھلگ کرنے اور داعش کا اس کے اندر محاصرہ کرنے کی توقع رکھتا ہے۔
بین الاقوامی اتحاد عراقی افواج اور ایس ڈی ایف کو داعش کے خلاف ان کی جنگ میں فضائی مدد فراہم کر رہا ہے۔
دہشت گرد گروہ کے ماہر اور مصری فوج کے افسر میجر جنرل وائل عبدالمطلب نے دیارونا کو بتایا کہ "2016 کا سال داعش کے خلاف بھرپور بین الاقوامی فضائی حملوں کا سال تھا"۔
شام میں، ایس ڈی ایف کے جنگجوؤں کو زمین پر اتحاد کی طرف سے فراہم کی جانے والی حمایت نے انہیں 2016 میں منبج کو اور 2015 میں کوبانی اور تل آباد کو آزاد کروانے میں مدد کی تھی۔
آزاد شامی فوج (ایف ایس اے) کے دھڑوں نے جنہیں ترکی کی حمایت حاصل تھی، 16 اکتوبر کو شمالی حلب میں گاؤں اور قصبوں کو آپریشن فرات شیلڈ کے تیسرے مرحلہ کے حصہ کے طور پر، داعش سے آزاد کروا لیا جس میں دابق کا علامتی شہر بھی شامل ہے۔
ایف ایس اے کی افواج نے چوبیس اگست کو حکمت عملی کے لحاظ سے اہم شہر جرابلس پر بھی دوبارہ سے قبضہ کر لیا۔
عبدل المطلب نے کہا کہ منبج اور جرابلس کو کھونے سے "داعش شامی علاقوں میں نقل و حرکت کی آزادی سے محروم ہو گئی"۔ انہوں بتایا کہ یہ علاقے تیل کی اسمگلنگ اور تجارت کی اہم راہداریوں اور دوسرے علاقوں سے روابط کے لیے گڑھ کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔
عراق میں، داعش کو عراقی فوج اور پشمرگا افواج کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا جنہوں نے تکریت، سنجار، رمادی اور فلوجا کے شہروں کو واپس لے لیا۔
داعش کے سرمایے کے ذرائع کو نشانہ بنانا
قاہرہ یونیورسٹی میں بین الاقوامی اقتصادیات کے پروفیسر ناصر ال اشاوتی نے کہا کہ 2016 کا سال "داعش کے لیے سرمایہ کاری کے لحاظ سے بہت تباہ کن ثابت ہوا کیونکہ اتحاد کے فضائی حملے گروہ کی سپلائی لائنوں کو تباہ کرنے میں کامیاب رہے جنہیں وہ تیل اور دیگر چوری شدہ مواد کو بیچنے کے لیے استعمال کرتے تھے"۔
انہوں نے دیارونا کو بتایا کہ اس کے نتیجہ میں، تجارت کی تمام اقسام جس میں یہ گروہ ملوث تھا، رک گئیں جن میں زرعی اجناس، کپاس اور نوادارات کی فروخت بھی شامل ہے۔
داعش نے اپنی بہت سی سرگرمیوں کے لیے سرمایہ علاقے کے کنووں سے حاصل کیا جانے والا خام تیل فروخت کر کے حاصل کیا جس میں موصل کے جنوب میں واقع القیارہ بھی شامل ہے جو کہ عراق کے قدیم ترین اور اہم ترین تیل کے کنووں میں سے ایک ہے۔
داعش کو القیارہ سے 25 اگست کو دھکیل دیا گیا تھا اور وہ عراق میں اپنے آخری اور اہم ترین تیل سے مالا مال علاقے سے محروم ہو گئی۔
ال اشاوتی نے کہا کہ "بین الاقوامی اتحاد سیکورٹی اور اقتصادی گھیرے کو مضبوط کرنے میں بھی کامیاب رہا جس کا نتیجہ گروہ کے لیے اس سرمایہ کاری کو ختم کرنے کی صورت میں نکلا جو اسے بیرونِ ملک سے مل رہی تھی۔
خبروں سے پتہ چلا ہے کہ سرمایے کے نقصان سے گروپ کی مالیاتی صلاحیتوں پر حقیقی اثر پڑا ہے اور اسے اپنے جنگجووں کی تنخواہوں کو آدھا کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے ان میں سے کافی زیادہ کو شام اور عراق سے باہر یا ایسے دوسرے علاقوں کی طرف بھاگنا پڑا جو داعش کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ "مالیاتی ترغیبات گروہ کی طرف سے جنگجووں کو اپنی صفوں میں بھرتی کرنے کا سب سے موثر ذریعہ تھیں اور اس ہتھیار کے بغیر، جنگجوؤں کا بہاؤ رک گیا ہے"۔
صفِ اول کے کمانڈروں کا نقصان
حکمتِ عملی کے لحاظ سے اہم بہت سے شہروں اور تیل کی اسمگلنگ کے راستوں کو 2016 میں کھونے کے علاوہ، داعش مسلسل اپنے سینئر راہنماؤں سے محروم ہوتی رہی ہے جنہیں اس کے پیروکاروں میں بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل تھا۔
شام کے ایک صحافی محمد ال عبداللہ جو قاہرہ میں رہتے ہیں نے کہا کہ "گروہ کو 2016 میں اپنے صفِ اول کے بہت سے کمانڈروں سے محروم ہونا پڑا جس سے اس کی صفوں میں شدید بحران پیدا ہو گیا جس کے نتیجہ میں بہت سے جنگی محاذوں پر بڑے پیمانے پر یا انفرادی طور پر بھگوڑا پن دیکھا گیا۔
انہوں نے دیارونا کو بتایا کہ داعش کے عناصر نے سابقہ طور پر القاعدہ سے وابستہ ال نصرہ فرنٹ (اے این ای) کی طرف بھاگنا شروع کر دیا جو کہ اب فتح الشام فرنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اتحاد کی طرف سے نشانہ بنائے جانے والے سینئر راہنماؤں میں داعش کے ترجمان محمد ال عدنانی بھی شامل ہیں جس کا اصل نام طہ صبحی فلاحہ ہے اور جو 30 اگست کو شمالی شام میں ہونے والے فضائی حملے میں ہلاک ہو گیا۔ اس بات کی تصدیق پینٹاگون نے بارہ ستمبر کو کی۔
ال عبداللہ نے کہا کہ ال عدنانی "گروپ کے راہنما ابوبکر البغدادی کے بعد سیکنڈ ان کمانڈ تھا"۔
جولائی میں، گروہ نے سینئر کمانڈر ابو عمر الشیشانی کی عراق کے قصبے ال شرکت میں ہلاکت کی تصدیق کی جس کا اصل نام تارخان بتیراشیولی تھا۔ الشیشانی عراق اور شام کے درمیان اکثر نقل و حرکت کرتا تھا۔
پینٹاگون نے دس دسمبر کو ایک بیان میں کہا کہ نومبر کو الرقہ میں ہونے والے فضائی حملے میں تیونس کا بوبکر ال حکیم بھی ہلاک ہو گیا ہے جو کہ "اہم شخصیت تھا جس کی داعش کے لیے تاریخی اور موجودہ طور پر سہولت کاری اور بیرونی مہمات میں شمولیت" موجود تھی۔
ال عبداللہ نے کہا کہ داعش کے "وزیرِ اطلاعات" وئل ال فائد جو کہ ابو محمد الفرقان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، سات ستمبر کو الرقہ کے قریب درست حملے میں ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح، سمی محمد الجبوری جو کہ گروہ کے تیل کے آپریشنز کا باضابطہ انچارج تھا، اگست میں عراق اور شام کی سرحد کے قریب القائم میں ہلاک ہو گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دیہی حلب میں، تشرین ڈیم کے قریب، کرد افواج جولائی میں "داعش کے امیر ابو فارس صفرانی" کو ہلاک کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔
ال عبداللہ نے کہا کہ نومبر میں دیہی الرقہ میں ہونے والے حملے میں ابو محمد ال بنیاصی ہلاک ہو گیا جو کہ کار بموں کا باضابطہ انچارج تھا جب کہ ایس ڈی ایف نے داعش کے امیر عثمان ال تونیسی کو جون میں منبج میں ہونے والی مہم میں ہلاک کر دیا۔