اسلام آباد - وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے گزشتہ ہفتے کہا کہ پاکستان نے عسکری آپریشن ضربِ عضب سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور اب ملک کو آپریشن ضربِ قلم کی ضرورت ہے تاکہ امن اور برداشت کو پھیلایا جا سکے۔
فوج جون 2014 سے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب انجام دے رہی ہے۔
نوازشریف نے 5 جنوری کو اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے منظم کی جانے والی زبان، ادب اور معاشرہ کی چوتھی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "آپریشن ضربِ عضب کی طرح، آپریشن ضربِ قلم کی بھی انتہائی شدید ضرورت ہے"۔
ادبی شخصیات کو ایک کردار ادا کرنا ہے
انہوں نے کہا کہ "میں یقین رکھتا ہوں کہ ادیب، شاعر اور دانشور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ادب کے فروغ سے معاشرے میں امن اور ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے اور یہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں انتہاپسندی کے انسداد کی حکمتِ عملی کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے"۔
ایک ہزار سے زیادہ ادبی شخصیات، سکالرز، یونیورسٹی کے اساتذہ، طلباء اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد جو ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں، نے اس کانفرنس میں شرکت کی جو پانچ سے آٹھ جنوری تک اسلام آباد میں جاری رہی۔
افغانستان، سپین، سنگاپور، مالدیپ، فن لینڈ، آزربائیجان، اومان، نیپال، لبنان، ازبکستان، ترکی، جرمنی اور دیگر بہت سے ممالک سے تعلق رکھنے والے دانش وروں، شاعروں اور ادیبوں کے علاوہ پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کے نمائندوں نے کانفرنس میں شرکت کی۔
نوازشریف نے تحریر کردہ الفاظ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے، جنہیں عوام اور خصوصی طور پر نوجوانوں میں مثبت اقدار کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، کہا کہ "ادب کی زبان مشکل ترین موضوعات کو بھی آسانی سے اور موثر طریقے سے دوسروں تک پہنچا سکتی ہے جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی شامل ہے"۔
ادیبوں کے لیے مالی امداد میں اضافہ کرنا
وزیراعظم نے وزارتِ تعلیم کی قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن (قومی تاریخ و ادبی ورثہ) اور فنکاروں، لکھاریوں اور دانش وروں کی مدد کے لیے 500 ملین روپے (4.8 ملین امریکی ڈالر) کے ضربِ قلم چندے کا اعلان کیا۔
اس کے علاوہ، انہوں نے ایک ملین روپے (9,542 امریکی ڈالر) کے انتظار حسین ایوارڈ اور ادیبوں اور دانش وروں کے لیے زیادہ بڑی سالانہ امداد اور ایوارڈز کا اعلان کیا۔
نوازشریف نے کہا کہ "ادیب، شاعر اور دانش وروں کو دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرنا ہے۔ انتہاپسندی کی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو کہ اس وقت ملک میں پھیلی ہوئی ہے"۔
عدم برداشت کا مقابلہ کرنا
نوازشریف نے کہا کہ معاشرہ سخت ہو گیا ہے اور اس میں برداشت ختم ہو گئی ہے۔ "ہم بھول گئے ہیں کہ باہمی محبت، ایمان داری، شفقت اور ہمدردی سے بات کیسے کی جاتی ہے"۔
انہوں نے کہا کہ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ادبی اداروں کو اہم کردار ادا کرنا ہے اور حکومت ایسے اداروں کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
قومی تاریخ و ادبی ورثہ کے لیے وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے کہا کہ "2017 کے سال کو ضربِ قلم کا سال قرار دیا گیا ہے تاکہ "ملک کے معتدل عکس کو اجاگر کیا جا سکے"۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس کوشش سے ملک بھر کے لوگوں میں نہ صرف ادب کی سمجھ بوجھ پیدا ہو گی بلکہ لوگوں کو پاکستان کے بھرپور ادبی ورثہ اور اپنے ورثہ کو محفوظ کرنے کی ضرورت کے بارے میں آگاہی دینے سے، معاشرے میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد ملے گی"۔
حکومت ایسے ادیبوں کی مدد کا ارادہ بھی رکھتی ہے جن کے پاس اپنا کام شائع کروانے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ صدیقی نے کہا کہ "ایک کمیٹی قائم کی جائے گی جو مسودے کا جائزہ لے گی اور فیصلہ کرنے کی کہ آیا اسے حکومت کا فنڈ استعمال کرتے ہوئے شائع کیا جائے یا نہیں"۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ معیاری ادب تخلیق کرنے اور ملکی ہیروز کی کامیابیوں کے بارے میں انہیں تعلیم دے کر، نوجوان نسل کی فکری صحت کی نشوونما کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ "قومیں صرف تعلیم اور ادب کی تشہیر سے ہی ترقی حاصل کر سکتی ہیں"۔
مبصرین نے اس قدم کی تعریف کی ہے
ادیبوں اور ادبی منظرنامے کے دیگر شرکاء نے ان اقدامات اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے فن کی قوت کی بہت زیادہ تعریف کی ہے۔
لکھاری مستنصرحسین تارڑ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ آرٹ دہشت گردی کی نفسیاتی جنگ سے مقابلہ کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ بچوں کی ایک اور نسل دہشت گردی سے ذہنی عذاب کا سامنا نہ کرے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم لکھاری اسے ممکن بنائیں"۔
صحافی اور شاعر اوریا مقبول جان نے آرٹ کی شفایابی کی صلاحیت کے بارے میں تارڑ سے اتفاق کیا۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہمیں انسانی اقدار اور ادب کا احترام کرنا چاہیے۔ آرٹ اور ثقافت اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن ضربِ قلم حوصلہ افزائی کرتا ہے اور یہ خوابیدہ اداروں کو بحال کرتا ہے۔ "فنکاروں اور ادیبوں کی اگر حوصلہ افزائی کی جائے تو دہشت گردی کے شکار ہونے والوں کے حوصلے بڑھا سکتے ہیں"۔