دہشتگردی

تہران کے طالبان کے ساتھ روابط ہیں، ایرانی سفیر کا اعتراف

نجیب اللہ

طالبان کا ایک طاقتور ٹرک بم 10 نومبر کو مزارِ شریف میں جرمنی کے سفارت خانے سے ٹکرا گیا، جس میں کم از کم دو افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے [فرشاد عسیان/اے ایف پی]

طالبان کا ایک طاقتور ٹرک بم 10 نومبر کو مزارِ شریف میں جرمنی کے سفارت خانے سے ٹکرا گیا، جس میں کم از کم دو افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے [فرشاد عسیان/اے ایف پی]

کابل -- جمعہ (16 دسمبر) کو افغان ذرائع ابلاغ کے سامنے افغانستان میں ایرانی سفیر محمد رضا بہرامی نے اعتراف کیا کہ ایران کے تحریکِ طالبان کے ساتھ روابط ہیں۔

یہ بے نظیر اعتراف ایرانی حکومت اور ایران کے اسلامی انقلابی محافظ دستوں (آئی آر جی سی) کی جانب سے بارہا تردیدوں کے بعد سامنے آیا ہے کہ وہ پورے افغانستان میں سفاکانہ کارروائیوں کے ذمہ دار عسکری گروہ کو مالی اور عسکری امداد فراہم کر رہا ہے۔

کئی ذرائع ابلاغ کی جانب سے یہ خبر دیئے جانے کے بعد کہ ایران نے طالبان کو تہران میں ہونے والی ایک وحدتِ اسلامی کانفرنس میں مدعو کیا تھا، بہرامی نے طلوع نیوز اور آریانا سے بات چیت کی۔

سفیر نے اس بات کی تردید کی کہ ایرانی حکومت نے طالبان کو مدعو کیا تھا لیکن یہ اعتراف کیا کہ ایران اور افغان عسکری تحریک کے درمیان روابط موجود ہیں۔

نیز، گزشتہ ہفتے کے آغاز میں، ایرانی عالم محسن اراکی، ایران کی مجلسِ ماہرین کے ایک رکن، کے اس بیان کا حوالہ العربیہ نے دیا تھا کہ "ایران نے ہمیشہ طالبان تحریک میں کچھ فریقین کے ساتھ روابط رکھے ہیں، جو وحدتِ اسلامی میں یقین رکھتے ہیں۔"

افغان پارلیمنٹ کے ایک سابق رکن، معین مراستیال نے کہا، "طالبان کو اعانت فراہم کرنا اور ان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ایران کی افغانستان کے داخلی امور میں مداخلت کا اعلان ہے۔"

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "ایران کی جانب سے افغان عوام کے دشمنوں، جو روزانہ کی بنیاد پر بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں، کو عسکری امداد ان جرائم کو نمایاں کرتی ہے جس کے لیے ایران اور طالبان دونوں ذمہ دار ہیں۔"

انہوں نے کہا، "طالبان کے ساتھ ایران کے تعلقات کا امن اور استحکام سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس کے بالکل برعکس، ایران افغانستان کے تزویراتی اتحادیوں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے جو ملک کی حکومت اور عوام کی مدد کرتے ہیں۔"

مکارانہ دوہرا کھیل

افغان ارکانِ پارلیمنٹ، تجزیہ کاروں اور عام شہریوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ یہ حالیہ پیش رفتیں ایران کے مکارانہ دوہرے کھیل کی طرف اشارہ کرتی ہیں: یہ "وہابی دہشت گردی" کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے شام اور عراق کو پیسے، ہتھیار اور سپاہی بھیجتا ہے، لیکن دوسری جانب یہ طالبان -- ایک تحریک جو نظریاتی طور پر اس کی مخالف ہے -- کو افغانستان میں امداد دیتا ہے۔

کابل کے ایک مکین، محب اللہ نے سلام ٹائمز کو بتایا، "ایران درجنوں افغانی شہریوں کو ۔۔۔ 'دولتِ اسلامیہ عراق و شام' [داعش] کے خلاف لڑنے کے لیے شام بھیجتا ہے۔ تاہم، افغانستان میں، یہ طالبان کو امداد دے رہا ہے۔"

یہ نمایاں کرتے ہوئے کہ وہ سب دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں اور بے گناہوں کو نشانہ بناتے ہیں، انہوں نے کہا کہ طالبان، داعش اور دیگر ایسے گروہ ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں۔

محب اللہ نے کہا، "افغانستان میں طالبان کی جانب سے ارتکاب کیے گئے جرائم داعش اور دیگر تمام دہشت گرد گروہوں کی مجرمانہ سرگرمیوں سے مختلف نہیں ہیں۔"

صوبہ فراہ کی پارلیمنٹ میں نمائندہ ایک رکن، حمیرا ایوبی نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ایران اور طالبان کے درمیان روابط موجود ہیں، کیونکہ برسوں سے عسکری گروہ کے لیے ایران کی مالی اور عسکری امداد اس کا ثبوت ہے۔

تحریکِ طالبان کے لیے یہ امداد اس منطق کے یکسر متضاد ہے جس کا اعلان آئی آر جی سی اس وقت کرتی ہے جب وہ خطے میں سے عراق اور شام میں "دہشت گردی" اور داعش کے خلاف لڑنے کے لیے نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے۔

حمیرا نے کہا کہ ایسے افغانوں کو جو شامی حکومت کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں، بھرتی کرنے کے علاوہ، ایران مبینہ طور پر ایران میں افغان مہاجرین کو بھرتی کر رہا ہے۔

مختلف اندازوں کے مطابق، ایران میں دس لاکھ اور تیس لاکھ کے درمیان کسی تعداد میں افغان مہاجرین رہتے ہیں۔

حمیرا نے کہا کہ ایران ان مہاجرین کی بے گھری کا فائدہ اٹھاتا ہے اور انہیں حکومت کی طرف سے لڑنے کے لیے شام بھیجتا ہے۔

دوسری جانب، وہ امداد جو ایران طالبان کو دے رہا ہے پورے افغانستان میں سفاکانہ کارروائیوں میں سہولت کاری کر رہی ہے، تازہ ترین مثالوں میں طالبان کے ارکان کی مساجد میں بمباری، بے گناہ نوجوانوں کو سرِعام پھانسی دینا، اور نہتے عام شہریوں پر انتقامی حملے کرنا شامل ہیں۔

پیچدار تاریخ

گزشتہ چند عشروں میں طالبان اور ایران کی آگے پیچھے ہوتی ہوئی تاریخ ہے۔

سنہ 1998 میں جب طالبان نے مزارِ شریف پر قبضہ کیا تھا، عسکریت پسند ایرانی سفارت خانے میں جا گھسے تھے اور 10 سفارتکاروں اور ایک صحافی، جو سب کے سب ایرانی تھے، کو قتل کر دیا تھا۔

اس واقعہ کے بعد برسوں تک ایران اور طالبان کے درمیان تعلقات پیچیدہ رہے؛ تاہم، انہوں نے آخرکار روابط دوبارہ قائم کر لیے۔

حالیہ برسوں میں، افغان دفاعی اہلکاروں نے بارہا ایرانی سرحد پر ایرانی اسلحے کی دریافت کا اعلان کیا ہے۔

فراہ کے گورنر آصف نانگ نے حال ہی میں افغانستان کے 1 ٹی وی نیوز کو بتایا کہ ایران طالبان کی میزبانی کرتا رہا ہے اور کچھ ایرانی شہروں میں ان کے لیے تربیتی مراکز فراہم کرتا رہا ہے۔

ایک سیاسی تجزیہ کار اور کابل یونیورسٹی کے سابق پروفیسر، محمد فاروق بشر کے مطابق، ایسے ثبوت ایران-طالبان کے تعلقات کو افشاء کرتے ہیں، اگرچہ ایران ان کی تردید کرتا رہا ہے۔

تجزیہ کار نے، بطور مزید ثبوت، طالبان کے سپریم کمانڈر ملا اختر محمد منصور کی ہلاکت کا حوالہ دیا، جو مئی میں بلوچستان، پاکستان میں، مبینہ طور پر ایران کے دورے سے واپسی پر مارا گیا تھا۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بشمول ریڈیو فری یورپ نے اس وقت اطلاع دی تھی کہ اس کے پاسپورٹ پر ایرانی ویزا لگا ہوا تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500