سلامتی

خاتون کی خیبرپختونخوا بم اسکواڈ میں شمولیت پر تحسین

جاوید خان

خاتون پولیس اہلکار رافعہ قسیم بیگ 5 دسمبر کو نوشہرہ میں بارودی مواد کا سراغ لگانے کی تربیت حاصل کرتے ہوئے۔ [جاوید خان]

خاتون پولیس اہلکار رافعہ قسیم بیگ 5 دسمبر کو نوشہرہ میں بارودی مواد کا سراغ لگانے کی تربیت حاصل کرتے ہوئے۔ [جاوید خان]

پشاور -- خیبرپختونخوا (کے پی) کی پولیس کے بہت زیادہ تعریف کردہ بم ڈسپوزل یونٹ (بی ڈی یو) میں شامل ہونے کے لیے ایک خاتون پولیس اہلکار کو تربیت دیتے ہوئے پاکستان میں آگے جا رہی ہے۔

تربیت کی تکمیل پر، خاتون پولیس اہلکار رافعہ قسیم بیگ پاکستان میں بی ڈی ہو میں شامل ہونے والی پہلی خاتون بنتے ہوئے تاریخ رقم کرنے جا رہی ہیں۔

کے پی پولیس کے مطابق، اگر وہ کامیاب ہو جاتی ہیں، تو امکان ہے کہ رافعہ کے پی پولیس کے بی ڈی یو کا حصہ بن جائیں گی، جس نے سنہ 2009 کے بعد سے ہزاروں بموں کو ناکارہ بنایا ہے۔

کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) ناصر خان درانی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ رافعہ " نے بم ڈسپوزل کی تربیت حاصل کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کی تھیں۔"

30 مرد امیدواروں کے شانہ بشانہ، رافعہ نے بم کا سراغ لگانے اور اسے ناکارہ بنانے کی دوہفتوں کی بنیادی تربیت کا آغاز 5 دسمبر کو نوشہرہ میں کیا تھا۔

دہشت گردی کے خلاف برسرِپیکار خواتین

اگرچہ رافعہ بی ڈی یو کی پہلی خاتون رکن بن سکتی ہیں، وہ واحد خاتون نہیں ہیں جو کے پی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔

دیگر خواتین بھی بم ناکارہ بنانے کی تربیت حاصل کریں گی، کا اضافہ کرتے ہوئے درانی نے کہا، "ہمارے پاس پہلے ہی سے خواتین کمانڈوز کی ایک پلٹون موجود ہے جس نے انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔"

کے پی پولیس کا بی ڈی یو دنیا کے مصروف ترین بم اسکواڈز میں سے ایک ہونے کے ناخوشگوار امتیاز کا حامل ہے۔ سنہ 2009 کے بعد سے، اس نے 6،000 سے زائد بم ناکارہ بنائے ہیں، جس سے دسیوں ہزاروں جانیں اور اربوں روپے مالیت کی املاک بچی ہیں ۔

کے پی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خطرات سے واقف، رافعہ نے کہا کہ انہوں نے اپنے وطن اور اس کے عوام کے لیے کچھ غیرمعمولی کرنے کا عہد کیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دسمبر 2009 میں ۔۔۔ جس دن میں نے محکمۂ پولیس میں شمولیت اختیار کی، ضلعی عدالت کے باہر ایک بم پھٹا تھا، لیکن اس سے میری حوصلہ شکنی نہیں ہوئی۔"

حتیٰ کہ ان کے اہلِ خانہ کی درخواستیں بھی انہیں نہ روک سکیں۔ جنوری 2010 میں، انہوں نے متانی پولیس تھانے میں خدمات انجام دینا شروع کیں، جہاں اس وقت اس کے علاقے میں دہشت گردوں کے حملے ایک معمول تھا۔

رافعہ نے ایک عشرے سے زیادہ وقت سے ہزاروں بموں کو ناکارہ بنانے کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے والے بی ڈی یو ارکان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

تربیت میں بی ڈی یو رکن کا حفاظتی لباس پہنے ہوئے ہی، انہوں نے کہا، "میں دنیا کو دکھانا چاہتی ہوں کہ ہمارے خطے کی خواتین بھی اتنی ہی دلیر ہیں جتنے ان کے بموں کو ناکارہ بنانے والے مرد ساتھی دلیر ہیں۔"

رافعہ اپنی پیشہ ورانہ کامیابیوں کے لیے پہلے ہی اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔ اپریل میں، کے پی حکومت نے بطور ایک خاتون پولیس اہلکار ان کی کامیابی کے لیے، انہیں ہنرِ حوا (ہنرمند خاتون) ایوارڈ سے نوازا تھا۔

پولیس میں شامل ہونے سے پہلے، انہوں نے یونیورسٹی آف پشاور سے بین الاقوامی تعلقات اور معاشیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اب وہ قانون کی ڈگری حاصل کر رہی ہیں، جبکہ وہ کل وقتی ملازمت بھی کرتی ہیں۔

بہت سے لوگوں کے لیے مثالی نمونہ

پشاور ٹی کے ایک صحافی، حسن فرشان نے کہا کہ رافعہ کی داستان کا سب سے زیادہ متاثر کن پہلو یہ ہے کہ انہوں نے بی ڈی یو میں تعیناتی کے لیے رضاکارانہ خدمات پیش کی ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "رافعہ نے ایک مختلف اور مشکل انتخاب کیا ہے۔ پورے جنوبی ایشیاء میں ۔۔۔ وہ غالباً پہلی خاتون پولیس اہلکار ہیں جو بموں کو ناکارہ بنائیں گی۔"

جیسے ہی رافعہ کی شہرت پھیلی ہے، انہیں سوشل میڈیا پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔

ایک پاکستانی طالب علم، رفیع اللہ نے فیس بُک پر پوسٹ کیا، "وہ کے پی اور پورے پاکستان کی خواتین کے لیے ایک تحریک ہیں۔"

انہوں نے کہا وہ اپنی ہمت اور یونیورسٹی سے حاصل کردہ تین ڈگریوں کے لیے ترقی کی حقدار ہیں۔

ایک نوجوان پاکستانی، رمشہ نے ٹویٹ کیا، "لگی رہو۔ رافعہ ہم میں سے بہت سی لڑکیوں کے لیے ایک مثالی نمونہ بن رہی ہیں۔"

سوشل میڈیا کے دیگر صارفین نے ایک خطرناک کام کے لیے ایک مشکل تربیت حاصل کرنے کا انتخاب کرنے پر رافعہ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ اچھا ہے کہ ایک عورت کو ایسے پرخطر کام کے لیے منتخب کیا گیا ہے، تاہم میری تجویز ہے کہ ایسے آلات کو ناکارہ بنانے کے لیے روبوٹس جیسی جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے۔

جواب