دہشتگردی

بلوچستان کو متوقع دہشتگردانہ منصوبوں کا سامنا

عبدالغنی کاکڑ

9 دسمبر کو پاکستانی سیکیورٹی فورسز کوئٹہ کنٹونمنٹ کے تحفظ پر مامور ہیں۔ انٹیلی جنس کی جانب سے یہ بیان جاری ہونے کے بعد کہ عنقریب خود کش حملے متوقع ہیں، کوئٹہ میں سیکیورٹی ہائی الرٹ پر چلی گئی۔ [عبدالغنی کاکڑ]

9 دسمبر کو پاکستانی سیکیورٹی فورسز کوئٹہ کنٹونمنٹ کے تحفظ پر مامور ہیں۔ انٹیلی جنس کی جانب سے یہ بیان جاری ہونے کے بعد کہ عنقریب خود کش حملے متوقع ہیں، کوئٹہ میں سیکیورٹی ہائی الرٹ پر چلی گئی۔ [عبدالغنی کاکڑ]

کوئٹہ — حکام کا کہنا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں سیکیورٹی ایجنسیاں کوئٹہ میں دہشتگردی کے ان متوقع منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں جن کا انکشاف پاکستان کی ایک اعلیٰ ترین انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری کی گئی خطرے کی ایک تنبیہ میں کیا گیا۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک انٹیلی جنس عہدیدار سعد خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”کوئٹہ میں سیکیورٹی ہائی الرٹ پر کر دی گئی ہے۔ تمام حساس علاقوں میں اضافی سیکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔“

خودکش حملہ آور متوقع ہیں

انہوں نے کہا کہ تنبیہ میں کہا گیا ہے کہ ایک کالعدم گروہ نے چھ خودکش حملہ آور تیار کیے ہیں جو ممکنہ طور پر نفاذِ قانون کے اہلکاروں کا روپ دھار سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا یہ منصوبہ بدلے کی خواہش سے پیدا ہوا، انہوں نے مزید کہا کہ ”[یہ عسکریت پسند] 5 دسمبر کو ۔۔۔ ضلع پشین میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلہ میں مارے جانے والے 5 عسکریت پسند کمانڈروں کے بدلے کے خواہاں ہیں۔“

بلوچستان کے داخلی اور قبائلی امور کے وزیر سرفراز بگٹی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس لڑائی میں مرنے والے عسکریت پسندوں میں ”[کوئٹہ کے سول ہسپتال میں] 8 اگست کے خودکش حملے کا منصوبہ ساز“ جہانگیر بدین شامل تھا۔

اس حملہ میںجمع ہونے والے وکلا اور اخباری نمائندوں میں سے ستر سے زیادہ ہلاک ہو گئے.

بگٹی نے کہا کہ 5 دسمبر کے مقابلہ میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کا ”تعلق تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دھڑے الاحرار اور لشکرِ جھنگوی العلامی سے تھا،“ انہوں نے مزید کہا کہ وہ جون اور اگست میں کوئٹہ میں دو انتہائی اہم شخصیات کے قتل کے پس منظر میں بھی تھے۔

آئی ایس آئی ایل کی قدم جمانے کی کوشش

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پاکستانی وزارتِ داخلہ کے عہدیدار بلال درّانی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان، جو پہلے ہی متعدد عسکریت پسند گروہوں کے نرغے میں ہے، کو ”دولتِ اسلامیۂ عراق و شام“ (آئی ایس آئی ایل) کی جانب سے مداخلت کی کوششوں کا بھی سامنا ہے۔ ”آئی ایس آئی ایل بلوچستان میں اپنا نیٹ ورک بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ چند مقامی عسکریت پسند گروہ اسے فوجی انتظام و انصرام اور دیگر تعاون فراہم کر رہے ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”ہماری سرحد اس قدر محفوظ نہیں کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشتگردی کا خاتمہ کر سکے۔ [اس کمزوری] کی وجہ سے عسکریت پسند ہمارے ملک میں داخل ہو سکے۔ ہماری سرحدی افواج سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہی ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آئی ایس آئی ایل کی جڑوں سے پھوٹنے والی کونپلوں کے طور پر کام کرنے والے مقامی شورشی گروہ ”لشکرِ جھنگوی العلامی اور جنداللہ ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا، ”انہوں نے پاکستان میں متعدد مربوط حملے کیے۔“

انہوں نے مزید کہا، ”بنیاد پرست عناصر ریاست کے خلاف ایک مشترکہ حکمتِ عملی وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔“

دباؤ جاری رکھتے ہوئے

حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کچھ کامیابی ہوئی ہے، لیکن خطرہ ابھی موجود ہے۔

بلوچستان کے انسپکٹر جنرل پولیس احسن محبوب نے 5 دسمبر کو کوئٹہ میں ایک نیوز کانفرنس میں دسمبر 2014 میں نافذ ہونے والی انسدادِ دہشتگردی کی حکمتِ عملی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”ہم نے بلوچستان میں قومی ایکشن پلان [این اے پی] کے ذریعے عسکریت پسندوں کی کمر توڑ دی۔ اب ہماری توجہ عسکریت پسندوں کو مقامی باشندوں کے تعاون سے محروم کرنے پر مرکوز ہے۔“

محبوب نے کہا کہ عسکریت پسندوں پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے ”ہم اپنے عملہ کو انسدادِ دہشتگردی کی خصوصی تربیت دے رہے ہیں۔ اب تک 1,400 پولیس اہلکار یہ تربیت مکمل کر چکے ہیں۔“

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر دفاعی تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی بھی رجائیت کے لیے کچھ جگہ محسوس کرتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”میرا خیال ہے کہ داخلی سلامتی میں اضافہ نے عسکریت پسندوں کے لیے اپنے مقاصد کا حصول مشکل کر دیا ہے۔“

انہوں نے این اے پی اور جون 2014 میں شروع ہونے والے آپریشن ضربِ عضب کے خوش آئند نتیجہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”سیکیورٹی آپریشنز کے دوران بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں موجود عسکریت پسند قیادت بڑی حد تک ماری جا چکی ہے یا واپس افغانستان کو دھکیلی جا چکی ہے۔“

انہوں نے کہا، ”حکومت کو تمام عسکریت پسند گروہوں سے یکساں طور پر نمٹنا چاہیئے۔ حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے ضروی ہے کہ عسکریت پسند گروہوں سے لڑنے میں عوام کا اعتماد حاصل کریں۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

جب تک طالبان کی ریڑھ کی ہڈی اور پنجاب میں ان کا حامی رانا سنااللہ نہیں ٹوٹتا، ان پر قابو پانے کے لیے کسی بھی قسم کی کاروائی ممکن نہیں۔

جواب