جرم و انصاف

خیبر پختونخوا میں شہری پولیس گشت کا آغاز

جاوید خان

10 نومبر کو پشاور میں خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک (درمیان) اور انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درّانی (بائیں) شہری پولیس گشت کا افتتاح کر رہے ہیں۔ [جاوید خان]

10 نومبر کو پشاور میں خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک (درمیان) اور انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درّانی (بائیں) شہری پولیس گشت کا افتتاح کر رہے ہیں۔ [جاوید خان]

پشاور — خیبرپختونخوا (کے پی) پولیس نے اعلیٰ تربیت یافتہ اور صوبائی صدرمقام پشاور میں دہشتگردوں اور جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے جدید ٹٰیکنالوجی سے لیس ایک نئی فورس کا افتتاح کیا۔

یہ پولیس گشت ابتدائی طور پر تقریباً 176 اہلکاروں پر مشتمل ہو گا جو پشاور میں سیکیورٹی صورتِ حال پر نگاہ رکھنے کے لیے دو شفٹس میں کام کریں گے۔ ایک ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ پولیس اس فورس کی قیادت کریں گے۔

پشاور کے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر محمّد طاہر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ایک سب انسپکٹر کی قیادت میں ہر گاڑی میں چار اہلکار ہوں گے۔ ایک ڈرائیور ہو گا اور محافظوں کے طور پر انسدادِ دہشتگردی سکواڈ کے دو ارکان ہوں گے۔“

انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر اس فورس نے کیمروں سے لیس 22 گاڑیاں حاصل کی ہیں تاکہ شہر میں چلنے کے دوران اردگرد کے واقعات پر نظر رکھ سکے۔

طاہر نے کہا، ”وہ کسی بھی جرم، دہشتگردانہ سانحہ یا سڑک پر ہونے والے کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں موقع پر پہنچنے اور متاثرین کی مدد کرنے کے لیے فوری ردِّ عمل دیں گے،“ انہوں نے مزید کہا کہ اس فورس کے پاس مقامی تھانوں سے الگ اپنا ذاتی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ہو گا۔

شہری پولیس گشت کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم شرقی کنٹونمنٹ تھانے میں قائم کیا گیا ہے اور یہ وائرلیس نظام کے ذریعے تمام گاڑیوں سے رابطہ کرتا ہے۔ ایک خصوصی انتظام کیا گیا ہے تاکہ ہر گاڑی ڈیوٹی پر رہے اور اپنا علاقہ نہ چھوڑے۔

یہ گشت روزانہ آٹھ گھنٹے کی دو شفٹس میں کیا جائے گا۔

پولیس کارکردگی اور احتساب میں بہتری

کے پی کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے 10 نومبر کو پشاور میں ملک سعد شہید پولیس لائنز میں اس نئی فورس کا افتتاح کیا۔

صوبائی صدرمقام کے مختلف حصّوں میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل فورس کے ارکان نے وزیرِ اعلیٰ کو سلامی پیش کی۔

خٹک نے تقریب میں کہا، ”سٹی پولیس کے پی پولیس کو عوام دوست بنانے اور اس کی کارکردگی میں اضافہ کرنے کی جانب ایک نیا سنگِ میل ہے۔“

انہوں نے کہا کہ نئی پولیس فورس کسی بھی مجرمانہ یا دہشتگردانہ کاروائی کی صورت میں فوری ردِّ عمل دے گی اور عوام میں تحفظ کے احساس کو بہتر بنانے میں مدد کرے گی۔

انہوں نے کہا، ”ہم کے پی پولیس کو ترقی یافتہ دنیا سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، اور یہ نیا منصوبہ اس سمت میں ایک اور قدم ہے،“ انہوں نے مزید کہا کہ کار کے اندر ویڈیو ریکارڈنگ نظام پولیس اہلکاروں کو دائرۂ احتساب میں رکھنے میں بھی مدد دے گا۔

خٹک نے کہا، ”چند برس قبل ہمارا صوبہ دہشتگردی سے شدید متاثر ہوا تھا، لیکن حکومت کی کوششوں سے صورتِ حال بہت حد تک بہتر ہوئی ہے۔“

انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر میں نہ صرف دہشتگردانہ حملے بلکہ تمام جرائم کے واقعات میں کمی آئی ہے۔

کے پی پولیس انسپکٹر جنرل ناصر خان درّانی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”جیسا کہ شہری پولیس گشت مجرمانہ یا دہشتگردانہ کاروائیوں کی صورت میں پہلا ردِّ عمل دینے والی فورس کے طور پر متعارف کرائی گئی ہے، اسے وقت کے ساتھ ساتھ دیگر اضلاع تک پھیلایا جائے گا۔“

انہوں نے کہا، ”یہ فورس پولیس کنٹرول روم میں مدد کے لیے موصول ہونے والی کسی بھی کال پر فوری ردِّ عمل دے گی، اس کے ساتھ ساتھ یہ فورس عمومی جرائم، مشکوک حرکت اور دیگر جرائم پیشہ عناصر پر بھی نظر رکھے گی۔“

شہری پولیس کنٹرول روم تک پہنچنے کے لیے 15 پر کال کر سکتے ہیں۔

20 حلقوں میں خدمت

ابتدائی طور پر یہ فورس پشاور کے شہری اور کنٹونمنٹ علاقوں کے 20 حلقوں میں تعینات کی گئی ہے۔ بارہ ٹیمیں کنٹونمنٹ کی حدود میں خدمات سرانجام دیں گی، جبکہ آٹھ سکواڈ شہری حلقوں میں تعینات ہوں گے۔

درّانی نے کہا، ”ہر کار میں موجود چار رکنی ٹیم کو ایک ٹیبلیٹ فراہم کیا گیا ہے تاکہ ٹیم ہر فرد یا گاڑی کے ریکارڈز کی ڈیٹا بیس سے تصدیق کر سکے اور کسی سانحہ کی صورت میں جیو ٹیگ کر سکے۔“

عوام نے چھوٹی جدید کاروں اور پیشہ ورانہ طور پر ملبوس، اعلیٰ تربیت یافتہ افسران کے لیے اظہارِ ستائش کیا ہے۔

حیات آباد کے ایک معلّم امجد علی نے کہا، ”یہ فورس زیادہ عوام دوست محسوس ہوتی ہے اور امّید ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے لیے زیادہ مہلک ہو گی۔“ انہوں نے کہا کہ حکومت نے فورس کی اصلاح کرنے اور اہلکاروں کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے میں اچھا کام کیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کو ہنگامی صورتِ حال کی صورت میں کسی بھی مقام پر 12 منٹ کے اندر ردِّ عمل دینے کا کہا گیا ہے۔ اس سے کسی بھی دہشتگردانہ یا مجرمانہ کاروائی کی صورت میں متاثرین کو مدد ملے گی۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد

جواب

یہ پشاور کی عوام کے لیے بہت اچھا ہے، وہ بہت عرصے سے دہشتگردی سے متاثر ہو رہے ہیں اور وہ اس سہولت کے مستحق ہیں، کے پی کے حکومت کو کے پی کے کے تمام عوام، بطورِ خاص ہزارہ کے لیے مزید سہولیات فراہم کرنی چاہیئں کیوں کہ ہزارہ کے پی کے کی سب سے بڑی ڈویژن ہے۔

جواب