پشاور - حکام نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ خیبر پختونخواہ (کے پی) کی پولیس کے انسداد دہشت گردی کے شعبہ (سی ٹی ڈی) نے "دولت اسلامیہ عراق و شام" (داعش) سے تعلق رکھنے والے بہت سے ارکان کو حالیہ مہینوں میں گرفتار کیا ہے۔
اکتوبر میں چار گرفتاریاں
سی ٹی ڈی کے ایک اہلکار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "داعش کے دو ارکان، عبدل کبیر اور محمد اظہر کو اٹھارہ اکتوبر کو تحکال کے علاقے سے گرفتار کیا گیا۔ وہ لوگوں میں پفلٹ تقسیم کر رہے تھے جن میں انہیں اپنی صفوں میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی"۔ اس اہلکار نے ان معلومات کی حساسیت کی بنیاد پر گمنام رہنے کی درخواست کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے دو ساتھی فرار ہو گئے مگر پولیس نے بعد میں انہیں گرفتار کر لیا۔
اہلکار نے کہا کہ "اٹھارہ اکتوبر کو فرار ہو جانے والے دو افراد کو چوبیس اکتوبر کو پشاور میں ایک آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے انہیں اس وقت گرفتار کیا جب وہ داعش میں بھرتی کے بارے میں پروپیگنڈا پھیلا رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم نے جون سے ستمبر کے دوران داعش کے چار یا پانچ دوسرے ارکان کو بھی گرفتار کیا ہے"۔
سی ٹی ڈی کے حکام نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ داعش کے ملزمان دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے ارکان کے مقابلے میں زیادہ کماتے ہیں اور داعش کے کچھ ملزمان نے کالج کی تعلیم بھی حاصل کر رکھی ہے۔
اسی دن، چوبیس اکتوبر کو ہونے والی دوسری گرفتاریوں میں، کے پی پولیس کی انٹیلی جنس ایجنسی کی خصوصی برانچ کے ایک سب انسپکٹر کو چارسدہ ڈسٹرکٹ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
جیو نیوز کے مطابق، داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی۔
ملک بھر میں، پاکستانی حکام نے داعش کو کچل دینے کا عزم کر رکھا ہے۔ اکتیس اکتوبر کی نیوز انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق، داعش مخالف تلاشی کی مہمات کے پی، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مختلف قصبوں اور شہروں میں منعقد ہو رہی ہیں۔
ایک شخص نے بتیس ہلاکتوں کا دعوی کیا
سی ٹی ڈی کے مطابق، گزشتہ چند مہینوں میں داعش کے گرفتار ہونے والے ملزمان میں فرید بھی شامل ہے جو کہ ایک ٹارگٹ کلر ہے اور جس نے بتیس افراد کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
سی ٹی ڈی کے ایک دوسرے سینئر اہلکار جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے کہا ہے کہ فرید کے متاثرین میں پندرہ پولیس افسران بھی شامل ہیں۔
اہلکار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اسے ستمبر میں پشاور کے علاقے قاضی قلعہ سے گرفتار کیا گیا تھا"۔
اہلکار نے کہا کہ فرید نے دہشت گردی کی تربیت 2008 میں افغانستان سے حاصل کی تھی اور افغان حکام نے ایک وقت پر اسے اور اس کے بھائی کو دہشت گردوں سے تعلقات کے الزام میں گرفتار بھی کیا تھا۔
اہلکار نے کہا کہ فرید کا ایک دوسرا بھائی چند سال پہلے کے پی میں سیکورٹی افواج کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گیا تھا۔
فون سے دور رہنا
اہلکار نے کہا کہ تفتیش کے دوران، داعش کے ملزمان نے کہا کہ وہ فون کی وائرٹیپنگ سے بچنے کے لیے وہ موبائل کی ایپس کے ذریعے بات چیت کرتے تھے۔
نیوز انٹرنیشنل کی اکتیس اکتوبر کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں داعش کے ارکان موبائل ایپ ٹیلیگرام پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ بات داعش کے حال ہی میں گرفتار ہونے والے ایک ملزم نے پشاور میں پولیس کو بتائی۔
نیوز انٹرنیشنل کے مطابق، کے پی میں حکام کو اس ملزم سے انتہائی قیمتی اضافی معلومات ملی ہیں جیسے کہ اس بات کا انکشاف کہ داعش کی پشاور شاخ کا سربراہ ایک آفریدی قبیلے کا شخص ہے جو کہ پشاور کے نزدیک متانی میں رہتا ہے۔
سیال عسکریت پسند تشخص
درحقیقت، پاکستان میں داعش کے ارکان نے صرف اپنی شناخت ہی بدلی ہے اور اس سے پہلے وہ دوسرے کالعدم گروہوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ بات سیکورٹی کے تجزیہ نگاروں نے بتائی۔
فوجی کرنل (ریٹائرڈ) خالد منیر جن کا تعلق پشاور سے ہے نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "وہ پہلے سے ہی ایک مختلف شکل میں موجود تھے مگر اب انہوں نے داعش کے ارکان کے طور پر اپنے نام بدل لیے ہیں"۔
سینئر سی ٹی ڈی اہلکار نے اتفاق کیا کہ داعش کے ایسے ارکان وہی نظریات اور مقاصد رکھتے ہیں جن کی انہوں نے دوسرے گروہوں میں رہتے ہوئے تشہیر کی تھی۔
نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی کے نیشنل کوارڈینیٹر احسان غنی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "انہوں نے داعش میں شمولیت اپنے کیرئر میں ترقی کے طور پر کی ہے"۔
غنی نے 2013 میں کے پی پولیس کے انسپکٹر جنرل کے طور پر خدمات سر انجام دی تھیں۔
بہت اچھے
جوابتبصرے 1