دہشتگردی

ایران افغانستان میں مبینہ دشمنوں کو خوش کرنے کا متلاشی ہے

از ضیاء الرحمان

4 اکتوبر 2016 کو قندوز میں طالبان عسکریت پسندوں اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی کے دوران افغان ملشیا اپنے ہتھیاروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

4 اکتوبر 2016 کو قندوز میں طالبان عسکریت پسندوں اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی کے دوران افغان ملشیا اپنے ہتھیاروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اسلام آباد -- ایران اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات کے باضابطہ بننے کی طرف اشارہ کر رہی حالیہ اطلاعات پر افغان حکام، علماء اور دفاعی ماہرین کی جانب سے شدید تنقید ہو رہی ہے۔

ایسی اطلاعات علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے اور منافقانہ طور پر پُرتشدد انتہاپسند گروہوں -- جیسے کہ طالبان اور القاعدہ -- کی حمایت کرنے کی طویل ایرانی تاریخ کو نمایاں کرتی ہیں جن کے ساتھ ایرانی حکومت قیاساً نظریاتی اختلافات رکھتی ہے۔

ایران کے مرحوم طالبان رہنماء کے ساتھ روابط

ایران اور افغان طالبان کے درمیان روابط کا ثبوت مئی میں سامنے آیا تھا، جب طالبان رہنماء ملا اختر محمود منصور پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مارا گیا تھا۔ تفتیش کاروں کو پتہ چلا کہ اپنی موت کے وقت وہ ایران سے پاکستان میں داخل ہو رہا تھا۔

ایکسپریس ٹریبیون نے 17 اکتوبر کو خبر دی کہ مزید ثبوت گزشتہ ماہ سامنے آیا، جب افغان طالبان نے مولوی نیک محمد کو تہران میں اپنا سفیر مقرر کیا۔ سنہ 2001-1996 کے دوران افغانستان میں طالبان حکومت میں نیک محمد شعبۂ تعلیم کا سربراہ تھا۔

ایکسپریس ٹریبیون نے مزید کہا کہ ایران اور افغان دہشت گرد گروہ کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کے ایک اور اشارے میں، ایک تین رکنی طالبان وفد نے اس سال کے اوائل میں عسکری امداد کی تلاش میں تہران کا دورہ کیا تھا۔

ذرائع ابلاغ کی اطلاعات اور تجزیہ کاروں کے ساتھ کیے گئے انٹرویوز بتاتے ہیں کہ ایرانی حکومت گزشتہ عشرے سے طالبان کے لیے حمایت میں اضافہ کرتی رہی ہے، جس کا بنیادی مقصد افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں میں مخل ہونا تھا۔

دلچسپی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ حرکت اس نظریاتی پاکیزگی جس کا ایران دعویٰ کرتا ہے جو بچانے کی بجائے، خطے میں انارکی پھیلانے میں ایران کی بہت زیادہ دلچسپی کو نمایاں کرتی ہے۔

طالبان ایران کو 'اہم اتحادی' پاتے ہیں

افغان اور مغربی حکام کا کہنا ہے کہ ایران اور طالبان کے درمیان تعاون کی تاریخ برسوں پرانی ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

وال سٹریٹ جرنل (ڈبلیو ایس جے) نے جون 2015 میں رپورٹ دی تھی کہ افغان طالبان، جو کہ ماضی میں بھرتی اور ہیڈکورٹرز بنانے کے لیے پاکستان کو استعمال کرتے تھے، انہیں ایران میں اس کے ایلیٹ پاسدارانِ انقلاب کی شکل میں ایک "اہم اتحادی" مل گیا ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق، سنہ 2007 سے، حکام نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ طالبان کے لیے ہتھیار لے جانے والے قافلے ایران سے گزر کر افغانستان داخل ہو رہے تھے۔

جون 2013 میں، تعلقات میں ایک موڑ آیا جب ایران نے ایرانی حکام کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے طالبان کے ایک وفد کو باضابطہ طور پر مدعو کیا تھا۔

اس سال بعد میں، افغان حکام نے کہا کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ ایران اپنی سرحدوں کے اندر طالبان جنگجوؤں کو تربیت دے رہا ہے۔ افغان حکام اور طالبان کمانڈروں کے مطابق، اب تہران، مشہد اور زاہدان اور صوبہ کریمان میں طالبان کے چار تربیتی کیمپ ہیں۔

دی گارڈین اور ڈبلیو ایس جے نے خبر دی کہ افغان طالبان کے زاہدان اور مشہد میں دفاتر بھی قائم ہیں۔

ایک اعلیٰ افغان عہدیدار نے ڈبلیو ایس جے کو بتایا، "شروع شروع میں ایران طالبان کی مالی امداد کرتا تھا۔ لیکن اب وہ انہیں تربیت اور اسلحہ بھی دے رہے ہیں۔"

ایران اپنی سرحدوں کے اندر افغان مہاجرین کو بھی ہدف بنا رہا ہے، انہیں طالبان کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے بھرتی کر رہا ہے۔

ڈبلیو ایس جے نے کہا کہ ایسے ہی ایک ایرانی پشت پناہی والے طالبان جنگجو، عبداللہ نے کہا کہ ایرانی بندرگاہ بندر عباس میں بطور ایک غیر قانونی مزدور کام کرنے کے جرم میں حراست میں لیے جانے کے بعد، ایک ایرانی انٹیلی جنس افسر نے افغانستان میں ان کے لیے کام کرنے پر رضامند ہونے کی صورت میں اس کی تنخواہ بڑھا کر 580 ڈالر (40،235 افغانی روپیہ) ماہانہ کرنے کی پیشکش کی تھی۔

اس نے کہا، "ہمیں جو بھی چاہیئے تھا ایران فراہم کرتا تھا۔"

ایرانی'منافقت' پر غصہ

افغان حکام اور قبائلی عمائدین جنہوں نے سلمان ٹائمز کے ساتھ بات چیت کی انہوں نے اس تباہی پر غصے کا اظہار کیا جو ایران اور طالبان افغانستان پر نازل کر رہے ہیں۔

افغان وزارتِ مہاجرین و مراجعت کے ایک اہلکار، علی احمد جیلانی نے کہا کہ سویت قبضے اور خانہ جنگی کی وجہ سے اپنے ملک کے ہل جانے کی وجہ سے، جب افغان مہاجرین 1980 کے عشرے کے اوائل میں ایران فرار ہوئے، تو "ایرانی حکومت ۔۔۔ نے ان پر پابندیاں عائد کیں اور مہاجرین کو ہراساں کیا۔"

انہوں نے سلمان ٹائمز کو بتایا، "دریں اثناء، انہوں نے افغانستان کے دشمنوں کو ہتھیار اور سرمایہ فراہم کرتے ہوئے اور انہیں ایران میں دفاتر کھولنے کی اجازت دیتے ہوئے ان کی مدد کی۔ یہ منافقت ہے۔"

ہیومن رائٹس واچ اور دیگر نگران تنظیموں نے ایران کے ہاتھوں افغان مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی کے مؤقف کی تائید کی ہے۔ بدسلوکیوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جسمانی تشدد، مختصر جلاوطنیاں، انتہائی محدود ملازمت کے مواقع اور تعلیم تک انتہائی کم رسائی شامل رہی ہیں۔

صوبہ ننگرہار میں ایک سنی عالم، ملا صابر عزیزی نے سلمان ٹائمز کو بتایا کہ ایران کی نقصان دہ عسکری گروہوں جیسے کہ طالبان اور القاعدہ کی حمایت اس کے اپنے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے دعووں کی تردید کرتی ہے۔

عزیزی، جو صوبے میں امن برقرار رکھنے میں افغان حکومت کی مدد بھی کرتے ہیں، نے کہا، "ایران ۔۔۔ عالمگیر طور پر نامزد کردہ دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے ذریعے تذبذب پھیلاتا رہا ہے۔"

افغان سیاسی تجزیہ کار فضلِ حق مراد نے سلمان ٹائمز کو بتایا، "گزشتہ عشرے میں ہم نے دیکھا کہ ایران دہشت گردوں اور باغیوں کی حمایت کرتا رہا ہے حتیٰ کہ طالبان کی بھی۔ وہ یہ حربے افغانستان میں اثرورسوخ حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔"

مراد نے کہا، "اگر کوئی دہشت گردوں کا حامی ہے ۔۔۔ جو کہ ہمارے لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں، [وہ] افغانستان کا بھی دشمن ہے۔"

کابل یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے ایک پروفیسر، احمد ضیاء رافات نے کہا کہ طالبان پر ان دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو افغانوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔

انہوں نے سلمان ٹائمز کو بتایا، "ہم نے دیکھا ہے کہ انہیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔"

افغان دفاعی تجزیہ کار رحمت اللہ سیہون نے اگست میں سلمان ٹائمز کو بتایا کہ افغان اور اتحادی فوجوں نے مرنے یا گرفتار ہونے والے طالبان جنگجوؤں سے بارہا ایرانی سامان برآمد کیا ہے۔

دہشت گردوں کے ساتھ ایران کی ملی بھگت کا مزید ثبوت 20 جولائی کو سامنے آیا جب القاعدہ کے تین اعلیٰ ارکان، جو کہ تینوں ہی ایران کے مقامی ہیں، طے شدہ دہشت گردوں کی عالمی فہرست کا حصہ بنے: فیصل جاسم محمد علی امری الخالدی، یسریٰ محمد ابراہیم بایومی اور ابوبکر محمد محمد غمایان۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران اور القاعدہ کے تعلقات 1990 کے عشرے کے اوائل سے قائم ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی میں ایران کا کردار

اگرچہ پاکستان میں جون 2014 میں فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں ایک آپریشن شروع کرنے کے بعد سے امن و امان کی حالت میں ڈرامائی بہتری آئی ہے، پاکستان کے ایرانی ناشائستگی پر اپنے ہی اعتراضات ہیں۔

2 مئی کو، ایران نے ایک قانون منظور کیا جو شام اور عراق کی جنگ میں مارے جانے والے پاکستانی جنگجوؤں کے اہلِ خانہ کو شہریت عطا کرتا ہے۔ یہ حرکت اسلام آباد کو بہت ناگوار گزری تھی۔

کئی برسوں سے، پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ایران پاکستان میں فرقہ وارانہ تقسیم سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔

14 اگست 2014 کی تاریخ کی ایک چٹھی میں، پاکستانی قومی محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) نے صوبائی حکومتوں کو تنبیہ کی تھی کہ ایرانی حکومت 2،000 سے زائد پاکستانی طلباء و طالبات کے نجف، عراق میں مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے اخراجات اٹھا رہی ہے، جہاں ان کی "فرقہ وارانہ خطوط پر ۔۔۔ برین واشنگ" ہونی تھی۔"

نیکٹا نے متنبہ کیا کہ اگر وہ طلباء و طالبات شدت پسند بنتے ہیں، "تو انہیں پاکستانی حکومت کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔"

پاکستانی قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ نے انکشاف کیا کہ ایران کراچی میں بھی فرقہ وارانہ فسادات کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مضافاتی علاقے جیسے کہ "عباس ٹاؤن، جعفر طیار سوسائٹی، ملیر، انچولی رضویہ، نیو گولیمار اور شاہ فیصل کالونی ایرانی خفیہ کے لیے ایک شاندار عملی علاقہ مہیا کرتے ہیں۔"

ایران کا علاقائی کھیل

ایران دہشت گردی کی پرورش کیوں کرے گا اور ان دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مقصد کا اشتراک کیوں کرے گا جو قیاساً ملعون ہیں یہ بات خطے کے محقیق کے لیے اب کوئی راز نہیں ہے۔

غزہ، مصر میں الشرق سینٹر فار ریجنل اینڈ سٹریٹیجک اسٹڈیز میں ایرانی امور کے ایک ماہر، ڈاکٹر فتحی السید نے سلمان ٹائمز کو بتایا، "ایران اپنے سیاسی مفادات کو بڑھانے کے لیے برائی کے ساتھ اتحاد کرے گا۔"

انہوں نے کہا، "ایران عراق اور شام میں ان دونوں ممالک میں خصوصاً اور خطے میں عموماً دہشت گردی کے خاتمے کے تناظر میں داخل ہوا۔ لیکن اس نے ثابت کیا ہے کہ اس کے طالبان کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔"

انہوں نے کہا، مزید برآں، بیرونی ممالک میں فرقہ وارانہ تحریص ایرانی پالیسی کا "مترادف" ہے۔

دیارونا نے اگست میں رپورٹ دی تھی کہ شام میں ایران کی مہلک دخل اندازی نے تنازعہ کو طول دے دیا ہے، فرقہ وارانہ تناؤ کو بھڑکایا ہے اور دہشت گرد گروہوں کو شام کے علاقے میں نفوذ کرنے کی اجازت دی ہے۔

قاہرہ کے مقامی مڈل ایسٹ سینٹر فار ریجنل اینڈ سٹریٹیجک اسٹڈیز کے ایرانی امور کے ماہر فتحی السید نے دیارونا کو بتایا، حتیٰ کہ سنہ 2011 میں اس ملک میں جنگ چھڑ جانے سے قبل ہی، ایران نے احتجاج کرنے والوں کو دبانے کے لیے، ایرانی اور دیگر قومیتوں دونوں پر مشتمل جنگی گروہوں کو داخل کر دیا تھا۔

[کابل سے اعزاز اللہ اور قاہرہ سے ولید الخیر نے اس رپورٹ میں حصہ لیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

دشمن کے بنائے ہوئے جال کو اسی کے خلاف استعمال کرنا دانشمندی ہے، باقی خبریں جو ایکسپریس تریبیون نے دی ہیں وہ ایران کی موجودہ اسی طالبان نوازی کی پالیسی کو بدنام کرنے کی کوشش ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایکسپریس ٹریبیون صیہونیوں کا ابلاغی ادارہ ہے اور صیہونیوں نے طالبان، القاعدہ، داعش سے فائدے اٹھانے کیلے تشکیل دلوایا تھا اور جب ایران نے ان دہشت گردوں کو ہائی جیک کرلیا تو ان کی ماؤں کو موت آگئی ہے اسلئے پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔

جواب

جنرل ضیاءالحق نے امریکہ کو خدمات فراہم کیں اور طالبان تشکیل دیے۔ اور آج بالآخر جنرل راحیل شریف نے طالبان کے خلاف سخت اقدام کیا۔ عراق اور شام میں تیل کے کںوؤں پر اختیار حاصل کرنے کے لیے امریکہ فرقہ ورانہ مسئلہ متعارف کرا کر کھیل کھیل رہا ہے۔ سعودی اور پاکستانی اس کھیل کا حصّہ بن چکے ہیں۔ آئی ایس آئی ایس ”داعش“ کے زیادہ تر عسکریت پسندوں کا تعلق انہیں ممالک سے ہے۔ جنہیں سعودی عرب ادائیگیاں کرتا تھا۔ ہر کوئی یمن میں سعودیوں کے کردار کا تصور کر سکتا ہے۔ مختصراً سعودیوں نےغریب فلسطینیوں، برما/میانمر اور نائجیریا کے لوگوں کی کیوں مدد نہ کی۔ اس لیے کہ یہ امور امریکہ کی فائلوں میں درج نہ تھے۔ صرف مسلمان ہی اسرائیل کی بندوقوں تلے ہیں۔ اس لیے سعودی خاموش ہیں۔ شام اور عراق میں سعودی/امریکی عسکریت پسند ناکام ہو رہے ہیں۔ اس لیے وہ افرد جنہیں سعودیوں/امریکہ کا تعاون حاصل ہے، ان سب کے خلاف پراپیگنڈا کریں گے جو اسرائیلی/امریکی/سعودی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کریں گے۔

جواب

یہ کیا بے کار رپورٹ ہے۔ میں نے اس ویب سائیٹ سے متعلق معلومات اکٹھی کی ہیں، یہ ویب سائیٹ سعودی عرب کے لیے کام کر رہی ہے۔ سعودی عرب اسلام کا دشمن ہے، سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ مستحکم تعلقات ہیں۔ سعودی عرب کیوں غزہ کے مسلمانوں کو ہتھیار فراہم نہیں کر رہا۔ سعودیہ کی حکومت نے یمن کے خلاف جارحیت کی ہے۔

جواب