میڈیا

کے پی حکومت کی مواصلاتی حکمتِ عملی سے لوگوں کا اعتماد بحال

محمد شکیل

مقامی حکومت، دیہی ترقی اور انتخابات کے لیے خیبرپختونخواہ کے وزیر عنایت اللہ (بائیں سے دوسرے) مقامی حکومت کے شعبہ ہائے جات کے کام کے بارے میں مئی میں پشاور پریس کلب میں بریفنگ دے رہے ہیں۔ ]محمد شکیل[

مقامی حکومت، دیہی ترقی اور انتخابات کے لیے خیبرپختونخواہ کے وزیر عنایت اللہ (بائیں سے دوسرے) مقامی حکومت کے شعبہ ہائے جات کے کام کے بارے میں مئی میں پشاور پریس کلب میں بریفنگ دے رہے ہیں۔ ]محمد شکیل[

پشاور - حکام کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخواہ (کے پی) کی حکومت کی طویل المعیاد مواصلاتی حکمتِ عملی، جس کا تقریبا چھہ ماہ پہلے آغاز کیا گیا تھا، نے مقامی حکومت کے اداروں پر شہریوں کا اعتماد بحال کرنا شروع کر دیا ہے۔

پشاور ڈسٹرکٹ کونسل کے رکن نور شہزاد نیازی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "نئے نظام نے حکومت پر لوگوں کا اعتماد بڑھا دیا ہے کیونکہ عوامی نمائندوں کی تعداد کو بڑھا دیا گیا ہے جس سے مسائل کے حل کرنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں"۔

کے پی کی مقامی حکومت، انتخابات اور دیہی ترقی کے شعبہ (ایل جی ای اینڈ آر ڈی ڈی) نے اپریل میں 2020-2016 کے لیے اپنی مواصلاتی حکمتِ عملی کا باضابطہ آغاز کیا تھا۔ اسے "پیچیدگی سے وضاحت" کا نام دیا گیا ہے۔

عوامی رائے کی تلاش

اس حکمت عملی کا مقصد عام لوگوں کو، کے پی کی حکومت کی سرگرمیوں اور کامیابیوں کے بارے میں ادارہ جاتی طریقے سے آگاہ کرنا اور شہریوں کو رائے دینے کے لیے مدعو کرنا ہے۔

نیازی نے کہا کہ "نئے نظام نے ہمارے پہلے سے موجود سماجی تانے بانے کو زیادہ ہم آہنگی دی ہے اور اس کے ارکان میں امن کے لیے کام کرنے کے لیے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے آگاہی پیدا کی ہے۔ ان کے اعتماد اور ذمہ داری کے احساس میں اضافہ ہوا ہے اور نئے نظام نے لوگوں کو ان کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک آسان انتخاب فراہم کیا ہے اور انہیں اپنے مقامی علاقوں میں امن اور سکون قائم کرنے کے مقصد کو ترجیح دینے کے قابل بنایا ہے"۔

ضلعی کونسل کے ایک اور رکن لیاقت علی نے کہا کہ گراس روٹ کی نمائںدگی کا نظام جو اس وقت ابھرا جب 2001 کی اصلاحات کے تحت مقامی حکومتوں کو اختیارات دینے سے پرخلوص شہری طبقہ تخلیق ہوا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ان کی توانائیوں کو معاشرے پر عسکریت پسندی کے برے اثرات کے بارے میں معلومات کی نگرانی اور انہیں الگ الگ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے عسکریت پسندوں کو دراندازی اور نوجوان نسل کو بھڑکانے سے روکا جا سکتا ہے"۔

مقامی حکومت، دیہی ترقی اور انتخابات کے لیے کے پی کے وزیر عنایت اللہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم اپنے کام کے بارے میں لوگوں کو رسائی دینے اور عام لوگوں کی بھلائی کے لیے حکومت کی کوششوں کو اجاگر کر کے،عام شہریوں اور شعبہ کے درمیان خلیج کو کم کرنا چاہتے ہیں"۔

جدید مطالبات کو لازمی پورا کیا جائے

انہوں نے کہا کہ "تیز تر مواصلات کے اس دور کا مطالبہ ہے کہ خیالات کے تبادلے کے لیے رابطے کے بہتر منظم اور موثر طریقوں کو اپنایا جائے۔ یہ مہم شعبہ کی طرف سے عوامی بھلائی کے لیے کی جانے والی جاری کوششوں کو بھی درست اور پیش کرے گی"۔

عنایت نے کہا کہ ایل جی ای اینڈ آر ڈی ڈی، مواصلات کو شہریوں کو سہولیات آسانی سے فراہم کرنے اور متعلقہ پارٹیوں کو اس کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حکمتِ عملی سے متعلقہ حکام تک شہریوں کو اپنی تجاویز کو قابل اعتماد اور منظم طریقے سے غور کے لیے پیش کرنے کا موقع ملے گا۔

ایل جی ای اینڈ آر ڈی ڈی کے انفرمیشن ٹیکنالوجی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد بشیر نے کہا کہ "اس مواصلاتی حکمت عملی کو سوچا گیا اور بعد میں تیار کیا گیا، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ مقامی حکومتوں کے شعبہ ہائے جات کے موثر کام کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مقامی حکومتوں کے کام کے وسیع مواقع کی وجہ سے، اس کی سرگرمیوں کو -- جس میں بجٹ کی تیاری، قوانین و قواعد، طریقہ کار اور جہتوں -- کو عوام کو بتانے کی ضرورت ہے"۔

انہوں نے کہا کہ ایک کمیونیکیشن ورکنگ کمیٹی جو کہ مقامی حکومت کے اہلکاروں اور بین الاقوامی خیراتی اداروں پر مشتمل ہے، کو بنایا گیا تاکہ مواصلاتی حکمتِ عملی کے مختلف پہلووں پر غور کیا جا سکے۔

بشیر نے کہا کہ "اس کمیٹی کو ایک ویب سائٹ بنانے، مواصلاتی گائڈ تیار کرنے، نیوز لیٹر شائع کرنے اور ایک دستاویزی فلم بنانے کے کام سونپے گئے تھے"۔

انہوں نے کہا کہ "تمام مقاصد کو قابلِ اطمینان طریقے سے حاصل کر لیا گیا ہے اور شہری اب اپنی شکایات اور شکووں کو www.lgkp.gov.pkپر داخل کر سکتے ہیں۔ شعبہ نے ٹوئٹر اور سوشل میڈیا کے اکاونٹ بنائے ہیں تاکہ عام لوگوں کی مدد کی جا سکے"۔

بجٹ منظور ہو گیا

بشیر نے کہا کہ کے پی کے سالانہ ترقیاتی منصوبے میں پیشہ ورانہ عوامی تعلقات کا شعبہ قائم کرنے کے لیے بیس ملین روپے (191,076 امریکی ڈالر) کا بجٹ منظور کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یونٹ ایل جی ای اینڈ آر ڈی ڈی کی معلومات کو نشر کرے گا اور ایک مناسب چینل قائم کرے گا جس میں عام لوگوں کی طرف سے تجاویز اور مشورے مانگے جائیں گے۔ اس یونٹ میں کام کرنے کے لیے مواصلاتی منتقلی کے تین افسران کو بھرتی کیا جائے گا جن کا تعلق پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا سے ہو گا۔ ایل جی ای اینڈ آر ڈی ڈی کے ایڈیشنل سیکریٹری برکت اللہ خان نے کہا کہ کے پی کی حکومت نے یہ حکمتِ عملی بین الاقوامی تعاون کی جرمن سوسائٹی (جی آئی زیڈ) اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی مدد سے تیار کی ہے۔

برکت اللہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اس شراکت کا مقصد، اطلاعات کے بارے میں عوامی مطالبے کو پورا کرنے کے بارے میں ایل جی ای اینڈ آر ڈی ڈی کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ حکمتِ عملی عوام کو شکایات کا اظہار کرنے اور بہتری کے لیے تجاویز کو پیش کرنے کے لیے ایک موثر جگہ فراہم کرنے گی۔

برکت اللہ جو کہ شعبہ کے ریفارم مینجمنٹ سیل (آر ایم سی) کی سربراہی بھی کر رہے ہیں نے کہا کہ "یہ حکمت عملی، شہریوں کی بھرپور شرکت اور میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے شعبہ کے کام کو متحرک بھی کرے گی"۔

شعبہ کے نیوز لیٹر کے مطابق، آر ایم سی کو ایل جی ای اینڈ آر ڈی ڈی کے اندر قائم کیا گیا تھا تاکہ ترقیاتی ساتھیوں کے ساتھ تعلق قائم کیا جا سکے اور جاری اور اتفاق شدہ اصلاحات کا تجزیہ کیا جا سکے۔

اس نیوز لیٹر میں برکت اللہ کے بیان سے اقتباس پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ "ہم شہریوں کی بہتری کے لیے نتائج پیش کرنے کے لیے اصلاحات کی موثر مینجمنٹ پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

گاہے بگاہے ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت

پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی ریاض خان داود زئی نے ایسی سیال حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت پر زور دیا جو عوامی مطالبات کے مطابق ڈھل سکے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مواصلات ایک مسلسل جاری عمل ہے اور اس کو جدید بنانے کے لیے تمام متعلقہ پارٹیوں کی طرف سے مسلسل مشوروں کی ضرورت ہوتی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایسا نظام اپنا مقصد کھو دیتا ہے جس میں ایسے عوامل موجود نہ ہوں جو اسے اس سے مستفید ہونے والوں کے بڑھتے ہوئے مطالبات اور ضروریات کے مطابق نہ بنائیں۔ جمود اور حکمت عملی کو رکاوٹوں کے غیر ضروری نظام کا نشانہ بنانے سے لوگ اس سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم ہو جائیں گے"۔

انہوں نے کہا کہ "حکمت عملی کو گاہے بگاہے موافق بنانے کی ضرورت ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500