دہشتگردی

کیپٹن روح اللہ کی شہادت سے پاکستان میں فخر کے جذبات نے جنم لیا

ظاہر شاہ

کیپٹن ایک حالیہ تصویر میں آف ڈیوٹی نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے کوئٹہ میں داعش کے دہشت گردوں سے جنگ کرتے ہوئے شہادت پائی۔ ]بہ شکریہ آئی ایس پی آر[

کیپٹن ایک حالیہ تصویر میں آف ڈیوٹی نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے کوئٹہ میں داعش کے دہشت گردوں سے جنگ کرتے ہوئے شہادت پائی۔ ]بہ شکریہ آئی ایس پی آر[

پشاور - جب چوبیس اکتوبر کو کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تو پاکستانی فوج کے کیپٹن روح اللہ کی بہادری اور حتمی قربانی نے نہ صرف بہت سی زندگیوں کو بچایا بلکہ لاتعداد دوسرے افراد کو عسکریت پسندی کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے متاثر کیا۔

پولیس اہلکاروں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ تین عسکریت پسندوں نے پولیس ٹریننگ سینٹر کے مرکزی گیٹ پر دھاوا بولا اور پھر وہ بیرکس میں داخل ہو گئے جہاں ساڑھے سات سو سے زیادہ پولیس کیڈٹس رہائش پزیر تھے۔

کیپٹن روح اللہ اور نائب صوبیدار محمد علی نے ایک خودکش بمبار کو ہلاک کر دیا اور دوسرے کو گھیر لیا جس سے کیڈٹس کی بڑی تعداد کو بمباروں کی طرف سے بم کا دھماکہ کرنے سے پہلے فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ یہ بات انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں بتائی۔

حکام کے مطابق، پینسٹھ غیر مسلح کیڈٹس ہلاک ہوئے اور ایک سو بیس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ آخر میں تینوں کے تینوں حملہ آور ہلاک کر دیے گئے تھے۔

"دولت اسلامیہ عراق و شام" (داعش) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے 25 اکتوبر کو شہادت پانے والے کیپٹن روح اللہ اور محمد علی جو کہ زخمی ہوئے تھے، کے لیے بہادری کے تمغے دینے کا اعلان کیا۔ انہیں یہ تمغے دہشت گردوں سے جنگ اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنانے میں بہادری کا مظاہرہ کرنے پر دیے گئے ہیں۔

روح اللہ کو تمغہ جرات اور محمد علی کو تمغہ بسالت سے نوازا گیا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف پاکستان متحد

پاکستانی شہریوں کا کہنا ہے کہ دونوں فوجیوں نے دہشت گردوں کو صاف اور واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے اور وہ انہیں جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

ستائیس سالہ روح اللہ کو چارسدہ ڈسٹرکٹ کی شب قدر تحصیل میں ان کے آبائی گاوں میں فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔

وہ پشاور میں پیدا ہوئے اور ڈاکٹر حبیب اللہ کے بیٹے تھے۔ وہ چار بہن بھائیوں میں سے سب سے بڑے تھے۔

روح اللہ کو فوج میں کمیشن 2012 میں ملا تھا اور انہوں نے جنوبی وزیرستان میں انسداد دہشتگردی کے آپریشن میں شرکت کی تھی۔ وہ اس آپریشنل ٹیم کا حصہ تھے جس نے جنوری میں چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کا جواب دیا تھا۔

ان کے والد نے کہا کہ وہ وہ ایک شہید کا والد ہونے کے ناطے اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان محسوس کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر حبیب اللہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مجھے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے۔ روح اللہ نے اپنی جان قربان کر کے مستقبل میں فوجی بننے والے بہت سے نوجوانوں کی جانیں بچائیں جس نے اس کے سارے خاندان اور اس کے آبائی علاقے شبقدر کا سر فخر سے بلند کر دیا"۔

انہوں نے کہا کہ "وہ بہت پیارا بیٹا اور ایک شائستہ انسان تھا۔ اگرچہ ہم اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر اسے فوج میں شامل ہونے کا شوق تھا"۔

انہوں نے کہا کہ "روح اللہ کی تین مہینوں کے بعد شادی ہونے والی تھی مگر یہ خدا کی مرضی ہے اور ہم اس کی شہادت پر خوش ہیں"۔

روح اللہ کے بائیس سالہ بھائی کاشف نے کہا کہ اس کے بھائی کی بہادری نے اسے متاثر کیا ہے۔

کاشف نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میں شہید کیپٹن روح اللہ کا بھائی ہوں جس نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کیا اور پوری قوم اس کا احترام کر رہی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "میں بھی کیپٹن روح اللہ کے نقشِ قدم پر چلوں گا اور فوج میں شامل ہو کر پاکستان کے دشمنوں کو کچل دوں گا"۔

روح اللہ کے دوست اور کزن محمد آصف نے روح اللہ کی خوش باش طبعیت کو یاد کیا۔

آصف نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "وہ ایک حقیقی خوش مزاج اور دوستانہ شخص تھا۔ میں کبھی بھی اس کا مسکراتا ہوا چہرہ نہیں بھول سکتا"۔

انہوں نے کہا کہ "روح اللہ خوش مزاج تھا مگر اپنی ڈیوٹی کے لیے بہت پرخلوص تھا اور اپنے ملک اور لوگوں کی حفاظت کے لیے کام کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا"۔

کیپٹن روح اللہ: شیر کی ہمت، ملک کا فخر

فوج کے ایک رنگروٹ عبداللہ خان، جنہوں نے کیپٹن روح اللہ کی بہادری کا مشاہدہ کیا، کہا کہ کیڈٹس کو ان کی بیرکوں سے بچا کر لانے کے بعد، روح اللہ نے ایک چارپائی کے نیچے چھپے ہوئے خودکش بمبار کو للکارا اور ہلاکت خیز دھماکے سے پہلے اپنے آپ کو دہشت گرد کے اوپر گرا دیا۔

خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کیپٹن روح اللہ کے پاس شیر جیسی بہادری تھی اور اس نے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیے بغیر ہمیں خطرے سے دور کیا اور پھر ہماری جان بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ ہم اسے سلام کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم دہشت گردوں کو صاف طور پر یہ بتا رہے ہیں کہ انہوں نے ہم پر اندھیرے میں حملہ کیا مگر ہم جلد ہی دن کی روشنی میں ان کے پیچھے آ رہے ہیں"۔

خان نے کہا کہ "نہ صرف اس کے اہلِ خاندان اور ساتھی، مسلح افواج کے ارکان اور ساری پاکستانی عوام، سیاست دان، نوجوان اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ، کیپٹن روح اللہ کی قربانی کی تعریف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ دھرتی کا یہ بہادر بیٹا ان کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا"۔

عوامی نیشنل پارٹی کی جوائنٹ سیکریٹری شگفتہ ملک نے شہید ہونے والے کیپٹن کو خراجِ عقیقدت پیش کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "نوجوان پشتون فوجی نے دوسروں کی جان بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ ہم اسے سے پیار کرتے ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ واپس نہیں آ سکتا مگر وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا"۔

انہوں نے کہا کہ "کیپٹن روح اللہ کی قربانی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ دہشت کا خاتمہ کر رہا تھا اور یہ دہشت گردوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ ہمارے عزم اور عہد کو شکست نہیں دے سکتے ہیں"۔

خیبرپختونخواہ (کے پی) اسمبلی کے رکن جن کا تعلق حکمران جماعت تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ہے کہا کہ "کیپٹن روح اللہ دھرتی کے ایک بہادر بیٹے تھے اور ہمیں اس پر اور اس کی بہادری پر فخر ہے"۔

پشاور یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے کہا کہ "روح اللہ کی بہادری اور ہمت ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہو گی۔ ہمیں ان پر فخر ہے"۔

پشاور کے ایک اور کالج کے طالب علم جاوید کریم نے کہا کہ کیپٹن روح اللہ کا عمل متاثر کن ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "انہوں نے ہمیں امید کا سبق دیا اور دہشت گردوں کو پیغام دیا کہ پاکستان کا ہر نوجوان زمین کی حفاظت اور جانوں کی حفاظت کے لیے مضبوطی سے کھڑا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500