پشاور — حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا (کے پی) پولیس خصوصی لڑاکا یونٹ (ایس سی یو) کو مزید مستحکم کر رہی ہے اور اعلیٰ تربیت یافتہ کمانڈوز کی دہشتگردی اور عسکریت پسندی سے لڑنے کی استعداد کو بہتر بنا رہی ہے۔
تازہ ترین کاوشوں میں کے پی پولیس نے حال ہی میں کماںڈوز کے لیے ایک نیا آفس کمپاؤنڈ تشکیل دیا ہے، جو نگرانی اور لڑائی کے جدید ترین آلات کے ساتھ مکمل ہے۔
ایس سی یو صوبے میں سب سے زیادہ تربیت یافتہ فورس ہے۔ وہ سٹنگ آپریشنز، پابندی کے اطلاق اور اکیلے یا پولیس اور نفاذِ قانون کی دیگر ایجنسیوں کے ساتھ معاونت سے انسدادِ دہشتگردی کے آپریشنز کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ایس سی یو مئی 2014 میں قائم ہوا، جب انسدادِ دہشتگردی کے آپریشنز میں 150 کمانڈوز کو تربیت دی گئی۔ فروری 2015 میں 32 خواتین کمانڈوز نے فورس میں شمولیت اختیار کی۔
کمانڈوز نے فضائی اور بحری آپریشنز سمیت مخصوص آپریشنز کرنے کے لیے فوج اور بحریہ سے بھی تربیت حاصل کی۔
کے پی کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) ناصر خان درّانی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ایس سی یو ایک مخصوص یونٹ ہے جسے کے پی میں کہیں بھی غیرمعمولی صورتِ حال کی صورت میں استعمال کیا جائے گا۔“
درّانی نے 29 ستمبر کو نوشہرہ کے ایلیٹ پولیس ٹریننگ سکول میں نئے آفس کمپاؤنڈ کا افتتاح کیا۔ انہوں نے اس سکول میں نئے آپریشنز روم کا بھی افتتاح کیا اور ایس سی یو کی تکنیکی استعداد کو بہتر بنانے کے لیے جدید ترین آلات ان کے حوالے کیے۔
انہوں نے صوبے کو درپیش مشکل ترین چیلنجز رضاکارانہ طور پر لینے پر ایس سی یو افسران کی پذیرائی کی۔
آئی جی پی نے ایس سی یو کمانڈوز کی جانب سے چھاپوں اور آپریشنز کی عملی مشق کا معائنہ کیا اور بطورِ کل تربیت کے معیار پر سراپا تعریف تھے۔
انہوں نے کہا، ”ہم نے کسی بھی غیرمعمولی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے درکار جدید ٹیکنالوجی، بندوقیں اور دیگر سہولیات فراہم کی ہیں۔ آگے چل کر ہم ایس سی یو اور ایلیٹ پولیس کو مزید اور جدید آلات فراہم کریں گے۔“
درّانی نے کہا کہ حکومتِ کے پی نے ایس سی یو کمانڈوز کے لیے ”ان کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کے علاوہ خصوصی مراعات کی منظوری دی ہے، ان کمانڈوز کو 15,000 روپے (143 امریکی ڈالر) اضافی الاؤنس دیا جاتا ہے۔“
پشاور کے مرکزی پولیس آفس کے سنیئر سپرانٹنڈنٹ پولیس اشفاق انور نے کہا، ”اس یونٹ کو پاک فوج کے سپیشل سروسز گروپ کے انسٹرکٹرز نے تربیت دی ہے اور ان میں بہترین تکنیکی مہارتیں اور آپریشنل صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔“
انہوں نے کہا کہ ایس سی یو کو صوبے کے پہاڑی علاقوں اور ریتلے میدانوں، ہر دو کے لیے تربیت دی گئی ہے۔ انور نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ان خصوصی تربیت یافتہ کمانڈوز کو بابوسر، شندور اور سوات کی برفیلی چوٹیوں کا بھی سامنا کرایا گیا۔“
انہوں نے کہا، ”صوبے بھر میں ان کی حرکت پذیری اور اثر پذیری کو بہتر بنانے کے لیے ایس سی یو کو ہر چھ ماہ بعد صوبے کے شمالی، جنوبی اور وسطی خطے میں منتقل کیا جاتا ہے تاکہ کمانڈوز علاقہ کے موسم، ماحول، جغرافیہ اور خطے کی ماہیّت کے عادی ہو سکیں۔“
انہوں نے کہا، ”نہایت کم وقت میں سپیشل کومبیٹ یونٹ نے صوبے بھر میں انسدادِ دہشتگردی کے متعدد دشوار آپریشنز میں اپنی افادیت کو ثابت کیا ہے۔“
انہوں نے کہا کہ آئی جی پی نے حال ہی میں ایس سی یو کو ان کی آپریشنل اثرانگیزی کو مزید بڑھانے کے لیے نگرانی کے جدید ترین آلات فراہم کیے ہیں۔ یہ یونٹ کو پہلے ہی سے فراہم کیے گئے ان آلات کے علاوہ ہیں جس نے دہشتگروں اور عسکریت پسندوں پر ان کی نمایاں برتری کو یقینی بنانے میں مدد کی۔
انور نے مزید کہا کہ ایک فرانسیسی پولیس انسدادِ دہشتگرد یونٹ نے ایس سی یو کی تربیت اور تدبیری صلاحیّت کا معائنہ کیا اور کمانڈوز کی غیر معمولی شجاعت اور مشکل ماحول میں خطرناک آپریشنز کرنے کی ان کی صلاحیت کی تعریف کی۔
ایک سیکیورٹی تجزیہ کار اور سابق سینیئر پولیس آفیسر ظفراللہ خان نے کہا کہ حکام کو چاہیئے کہ انسدادِ دہشتگردی کے لیے ایس سی یو کو جدید ترین ٹیکنالوجی، حفاظتی لباس اور ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”جیسا کہ صوبے کو ایک دہائی سے زائد عرصہ سے دہشتگردی سخت چوٹ پہنچا رہی ہے، غیر معمولی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ایس سی یو جیسی مخصوص فورس نہایت ضروری تھی۔“
انہوں نے کہا، ”کے پی پولیس اور صوبے کی عوام نے بہادری سے دہشتگروں کے خلاف جنگ لڑی ہے اور پاکستان میں امن کے لیے متعدد قربانیاں دی ہیں۔“