سلامتی

پاکستان نے نیٹو کے مفادات کے خلاف ہونے والے دہشتگرد حملوں کا خاتمہ کر دیا

جاوید محمود

18 اکتوبر 2016 کو اشیائے صرف سے بھرا ایک ٹرک اسلام آباد سے افغانستان کے لیے نکل رہا ہے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس پر مبنی اور عسکری آپریشنز کے آغاز کے بعد اب پاکستان سے افغانی کاروباری افراد اور نیٹو افواج کے لیے اشیا فراہم کرنے والی کمرشل گاڑیاں اب محفوظ ہیں۔ [جاوید محمود]

18 اکتوبر 2016 کو اشیائے صرف سے بھرا ایک ٹرک اسلام آباد سے افغانستان کے لیے نکل رہا ہے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس پر مبنی اور عسکری آپریشنز کے آغاز کے بعد اب پاکستان سے افغانی کاروباری افراد اور نیٹو افواج کے لیے اشیا فراہم کرنے والی کمرشل گاڑیاں اب محفوظ ہیں۔ [جاوید محمود]

اسلام آباد — پاکستانی عسکری اور سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ آپریشن ضربِ عضب اور کالعدم عسکریت پسند گروہوں کو نشانہ بنانے والے انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز کی ابتدا کے بعد دہشتگرد پاکستان میں نیٹو مفادات پر حملہ نہیں کر سکے۔

ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل (ایس اے ٹی پی) نے خبر دی کہ 2008 اور 2014 کے درمیان پاکستان کے چاروں صوبوں میں نیٹو مفادات کے خلاف 250 دہشتگردانہ حملوں کی اطلاع دی گئی، جس کے نتیجہ میں 143 افراد – بلوچستان میں 46، وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں 59، خیبر پختونخوا (کے پی) میں 18، پنجاب میں 19 اور سندھ میں ایک – ہلاک ہوئے۔

ایس اے ٹی پی کے مطابق، 2010-2014 میں نیٹو کنٹینرز، آئل ٹینکرز اور سامان پر حملے عروج پر تھے، لیکین جنوری 2015 اور اکتوبر 2016 کے درمیان نیٹو کے خلاف کسی بھی حملے کی اطلاع نہیں دی گئی۔

عسکری اور سیکیورٹی ماہرین اس کامیابی کو عسکریت پسندوں کے خلاف شروع کیے گئے ملک گیر ٹارگٹڈ عسکری اور انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کے مرہونِ منّت قرار دیتے ہیں۔

عسکریت پسندی اور دہشتگردی کی بیخ کنی

فاٹا کےلیے سابق سیکیورٹی سیکریٹری، برگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا، ”نیٹو کنٹینرز، آئل ٹینکرز اور افغانستان میں نیٹو فورسز کو متعدد اشیاء فراہم کرنے والے افراد پر ہونے والے زیادہ تر دہشتگرد حملوں میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملوث تھی۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”فاٹا، بالخصوص شمالی وزیرستان میں عسکری آپریشن اور ملک کے دیگر علاقوں میں سیکیورٹی ایجنسیوں کے انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز نے نہ صرف طالبان کے نیٹ ورک اور بنیادی ڈھانچے کا صفایا کیا بلکہ بڑے حملے کرنے کی ان کی استعداد کو بھی کم کر دیا۔“

انہوں نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب کے نتیجہ میں طالبان نے بھاری اموات اور اپنے نیٹ ورک کو ہونے والے نقصان کا سامنا کیا ہے اور یہ عسکریت پسند گروہ اب ماضی کی طرح حملے کرنے کی حالت میں نہیں۔

شاہ نے نشاندہی کی کہ افغانستان سے افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان میں نیٹو اشیاء اور سامان کی مقدار کم ہو گئ ہے، تاہم، سامان سے بھرے کنٹینر اور آئل ٹینکر تاحال بکثرت پاکستان سے افغانستان دہشتگرد حملوں کا سامنا کیے بغیر جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”فوج نے ملک میں شدت پسندی اور عسکریت پسندی کو کچلنے کا اپنا فرض ادا کیا اور اب سول-ملٹری قیادت کو ان آپریشنز کی کامیابی اور بہتر سیکیورٹی صورتِ حال کے تناظر میں امن کو برقرار رکھنے کے لیے مزید حکمت ہائے عملی وضع کرنا ہوں گی۔“

شاہ نے کہا کہ پاکستان میں تمام کالعدم گروہوں کے خلاف ایک ملک گیر آپریشن عسکریت پسندی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دے گا۔

انہوں نے کہا، ”حکومت کو دہشتگردی کے شر کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے فوج کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیئے۔“

دہشتگروں کے اتحادیوں کے نیٹ ورکس کو کچلنا

مرکز برائے تحقیق و علومِ سلامتی (سی آر ایس ایس)، اسلام آباد کے چیئرمین، سیکیورٹی تجزیہ کار امتیاز گل نے کہا، ”خیبر ایجنسی میں فوج کے حالیہ آپریشن نے عسکریت پسندوں کی قوت کو مسدود کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے دہشتگردی سے متعلق تشدد اور پاکستان میں نیٹو مفادات پر حملوں میں تیزی سے کمی آئی۔“

گل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا تو ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں نے خیبر ایجنسی میں پناہ لی اور منگل باغ کی قیادت میں لشکرِ اسلام کے ساتھ اتحاد تشکیل دیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”عسکریت پسند گروہوں کے اس اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج نے خیبر ایجنسی میں ایک متوازی آپریشن کا آغاز کیا اور عسکریت پسندوں کی قوت، عسکریت پسندی اور وجود کا خاتمہ کیا، جس کی وجہ سے سیکورٹی صورتِ حال میں بہتری آئی اور حملوں کی رفتار میں کمی آئی۔

جون 2014 میں آپریشن ضربِ عضب کے آغاز اور دسمبر 2015 میں افغانستان سے نیٹو افواج کے بڑے پیمانے پر انخلاء سے قبل پاکستان سے افغانستان کو نیٹو اشیائے ضروریہ اور سامان لے جانے والی گاڑیوں پر حملے خاصے عام تھے۔

گل نے کہا کہ اب پاکستان سے گزرنے والا باقی سامان بحفاظت کابل اور قندھار پہنچ جاتا ہے۔

انسداد دہشت گردی تعاون میں اضافہ

کوئٹہ پریس کلب کے صدر اور کوئٹہ میں مقیم کوئٹہ پریس کلب کے دفاعی تجزیہ کاروں کے صدر اور دفاعی تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے بتایا، "فوجی آپریشن ضرب عضب کے آغاز اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر سیکورٹی ایجنسیز کے آپریشنز سے قبل بلوچستان کو نیٹو فورسز کا سامان لیجانے والی گاڑیوں پر دہشت گرد حملوں کی سب سے بڑی تعداد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں نے بلوچستان میں عسکریت پسندوں، باغیوں اور ان کے سہولت کاروں کے نیٹ ورک کا صفایا کردیا جو ٹھیکیداروں اور افغانستان میں فوجیوں کے لئے سامان لیجانے والی گاڑیوں کے مالکان سے بھتہ کی رقوم کی وصولی میں ملوث تھے۔"

انہوں نے بتایا، اس سے قبل، عسکریت پسند بھتہ کی رقم دینے سے انکار کرنے والوں کے لدے ہوئے کنٹینرز اور آئل ٹینکرز پر حملے کردیتے تھے۔

انہوں نے بتایا، "بلوچستان کا علاقہ خضدار، بھتہ کی وصولی اور عسکریت پسندوں اور باغیوں کے نیٹو کے مفادات پر حملوں کے لئے بدنام تھا، لیکن سیکورٹی ایجنسیز کی انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں نے اس شیطانی گٹھ جوڑ کا خاتمہ کردیا۔"

ذوالفقار نے بتایا، "حکومت، سیکورٹی اور انٹیلیجنس ایجنسیز کو اپنے تعاون کو مزید بڑھانا چاہیئے اور عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی اور سلامتی کو بہتر بنانے کے لئے معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیئے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500