دہشتگردی

آپریشن ضربِ عضب اور قومی ایکشن پلان سے دہشتگردی میں کمی

جاوید محمود

24 ستمبر کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کھاریاں، صوبہ پنجاب کے قریب واقع قومی مرکز برائے انسدادِ دہشتگردی کی نئی جدید تقاضوں کے ہم آہنگ تنصیبات کا افتتاح کیا۔ [بشکریہ آئی ایس پی آر]

24 ستمبر کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کھاریاں، صوبہ پنجاب کے قریب واقع قومی مرکز برائے انسدادِ دہشتگردی کی نئی جدید تقاضوں کے ہم آہنگ تنصیبات کا افتتاح کیا۔ [بشکریہ آئی ایس پی آر]

اسلام آباد — مشاہدین کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے پاکستان کی کاوشوں کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور انہیں دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کے لیے ایک مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

ان کوششوں میں نمایاں طور پر پاکستان کا عسکری آپریشن ضربِ عضب اور قومی ایکشن پلان (این اے پی) شامل ہیں، جو تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، تحریکِ اسلامیٔ ازبکستان، القاعدہ اور ”دولتِ اسلامیۂ عراق و شام“ (آئی ایس آئی ایل) جیسے متعدد عسکریت پسند گروہوں کی انسداد پر مرکوز ہیں۔

گزشتہ ستمبر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، بالترتیب جون 2014 اور جنوری 2015 میں شروع ہونے والے آپریشن ضربِ عضب اور این اے پی کے نتیجہ میں پاکستان دہشتگردانہ سرگرمی کو 70 فیصد تک کم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

مزید برآں، ادارہ برائے تزویری علوم، اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) نے ”آئی ایس آئی ایل کی انسداد کے لیے عالمی اتحاد: پاکستان کیسے کردار ادا کر سکتا ہے“ کے عنوان سے 29 ستمبر کی ایک رپورٹ میں کہا کہ ان اقدامات کے آغاز کے بعد پاکستان میں دہشتگرد ”گزشتہ ایک برس میں کوئی کامیاب کاروائی نہیں کر سکے ہیں۔“

رپورٹ میں کہا گیا، ”اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی کاوشیں مثبت نتائج کی حامل ہو رہی ہیں اور درست سمت میں گامزن ہیں۔“

دہشتگردی کو کچلنے کے لیے چوگنا کوششیں

آئی ایس ایس آئی کی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کی کامیابی سے حاصل کیا گیا سبق آئی ایس آئی ایل کے خلاف جنگ میں — قومی ریاستوں، عبوری اور غیر سرکاری تنظیموں پر مشتمل 67 شراکت داروں پر مشتمل— عالمی اتحاد کی مدد کر سکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا، ”اب تک پاکستان انسدادِ آئی ایس آئی ایل کے لیے عالمی اتحاد کا رکن نہیں اور وہ جو بھی کردار ادا کر رہا ہے، قومی ایکشن پلان اور عسکری آپریشن ضربِ عضب کی یک طرفہ چھتری تلے آتا ہے“۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اتحاد کی عسکری سرگرمیوں کے نتیجہ میں ”آئی ایس آئی ایل عراق میں اپنا 50 فیصد اور شام میں 20 فیصد علاقۂ عملداری کھو چکی ہے، جو وقت اور اتحاد کی روز افزوں کاوشوں کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے۔“

اس میں کہا گیا، ”متحرک عسکری کاوشوں نے دہشتگردوں کی محفوظ جنّتوں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر کے [آئی ایس آئی ایل کے] توسیع پسندوں کی قوّتِ ضرب کو مسدود کر کے غیر متحرک کاروائیوں کے لیے بنیاد فراہم کی ہے، ان کے مالیات کے بہاؤ کو بند کیا ہے اور تیل کی اسمگلنگ اور دیگر وسائل پر منحصر ان کی معیشت کو تباہ کیا۔“

آئی ایس ایس آئی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے عسکری اور حکمتِ عملی پر مبنی ان تدابیر کا یہ اختلاط دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے ناگزیر ہے اور یہیں پر پاکستان کے آپریشن ضربِ عضب اور این اے پی نے سب سے زیادہ کامیابی دکھائی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا، ”پاکستان کے عسکری آپریشن نے ایک موثر نتیجہ کے ساتھ متحرک کاروائیوں کو یقینی بنایا۔ اسی طرح سے این اے پی غیر متحرک سرگرمیوں پر مرکوز رہتے ہوئے انسدادِ دہشتگردی کے ایک داخلی بنیادی ڈھانچے کو یقینی بناتی ہے جس میں عوامی شکایات کو دور کرنے کے لیے مدرسہ اصلاحات، قانونی اصلاحات، شدّت پسندوں کے نقطۂ نظر کو چیلنج کرنے اور معاشرتی-عدالتی اصلاحات شامل ہیں۔“

راہِ فتح پر

سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان دونوں حکمت ہائے عملی کی کامیابیوں کے اعتراف میں پاکستانی حکام کو چاہیئے کہ حاصل شدہ کامیابیوں کو پختہ کریں اور عسکریت اور سول، ہر دو کاروائیوں میں تیزی لائیں۔

پاکستانی سیکیورٹی تجزیہ کار لفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) جاوید اشرف قاضی نے کہا، ”آپریشن ضربِ عضب نے ایک عسکری فتح حاصل کی ہے، عسکریت پسندوں سے کام کرنے کی جگہ چھین لی ہے، متعدد کو ہلاک کیا اور نتیجتاً نمایاں طور پر عسکریت کے خدشہ کو کم کیا ہے۔“

انہوں نے دہشتگرد گروہوں کے مکمل خاتمہ تک آپریشن جاری رکھے جانے پر زور دیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”آپ عسکری لحاظ سے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں، لیکن جنگ عسکریت پسندوں کی تنظیم کے چور چور ہو جانے، رہنماؤں کے ختم ہو جانے اور بھرتی کی سپلائی لائنز کے بند ہو جانے تک جاری رہ سکتی ہے۔“

انہوں نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب ابھی تک انجام کو نہیں پہنچا کیوں کہ عسکریت پسندوں کے رہنما افغانستان فرار ہو چکے ہیں، جہاں وہ تنظیمِ نو کر رہے ہیں اور فوج کے جاتے ہی اپنے تربیتی علاقوں اور لانچگ پیڈز کی جانب لوٹنے کی امّید میں ہیں۔

قاضی نے کہا کہ این اے اپی کا مقصد عسکری آپریشن کی کامیابی کو برقرار رکھنے میں مدد کرنا ہے۔ انہوں نے کہا، تاہم اس ضمن میں اور بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ متعدد مدرسوں پر قانون نے ہاتھ نہیں ڈالا، جس کی وجہ سے عسکریت پسند بے خوفی سے انہیں بھرتی مراکز کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”مدرسوں میں تا حال غیر ملکی طالبِ علم ہیں اور انہیں غیرملکی امداد ملتی ہے، جس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیئے۔“

آپریشن ضربِ عضب پر تعمیر

قاضی نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب کے علاوہ پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بڑے شہروں میں کاروائیاں کرتی رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں بہتریں نتائج دیکھے گئے ہیں جہاں پولیس کی معاونت کے لیے رینجرز تعینات کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں صوبہ کے 90 فیصد کو قبائلی علاقہ قرار دیے جانے کی وجہ سے لیویز کو سیکیورٹی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جیسا کہ یہاں فوج تعینات نہیں، لہٰذا صرف فرنٹیئر کور ہی یہاں عسکریت پسندوں سے لڑ رہی ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ضربِ عضب کی کامیابی کو برقرار رکھنے کے لیے مستقل برگیڈ کے سائز کی چند چھاؤنیاں قائم کی جانی چاہیئں، مغربی سرحد سے افواج کو مشرق کی جانب واپس لایا جانا چاہیئے، سرحدوں کو محفوظ بنایا جانا چاہیئے اور افغانستان کے ساتھ سرحد کی مؤثر نگرانی کے لیے فرنٹیئر کور کی طاقت میں اضافہ کیا جانا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ علاوہ ازیں صوبائی حکومتوں کو عملدرآمد نہ کرنے والے مدرسوں پر کریک ڈاؤن کرنا چاہیئے، اور اصلاحات کی تعمیل نہ کرنے پر انہیں بند کر دیا جانا چاہیئے۔

درایں اثناء، انہوں نے کہا کہ، تیز تر عدالتی کاروائی اور عسکریت پسندی کو مزید کم کرنے کے لیے گرفتار شدہ عسکریت پسندوں کو عسکری عدالتوں کے حوالے کیا جانا چاہیئے۔

قانون کی مکمل حد تک این اے پی کا نفاذ

کراچی میں مقیم دفاعی تجزیہ کار کرنل (ریٹائرڈ) مختار احمد بٹ نے بتایا کہ آپریشن ضرب عضب اور این اے پی نے طالبان کے خوف کے دور کا خاتمہ کردیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بم دھماکے، خود کش حملے اور شہری اور دفاعی اہلکاروں کے قتل میں انتہائی کمی ہوئی ہے جس سے ضرب عضب کی کامیابی ظاہر ہوتی ہے۔"

انہوں نے بتایا، "طالبان کا خوف ختم ہوگیا ہے، سیکورٹی آپریشنز کے تناظر میں امن و امان کی بہتری کی وجہ سے لوگ آزادی سے ہر جگہ جا رہے ہیں۔"

انہوں نے بتایا، انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہونے والے آپریشنز پاکستان سے عسکریت پسندی کے مزید خاتمے کے لئے جاری رہ سکتے ہیں۔

کراچی میں مقیم دفاعی تجزیہ کار اور ڈیلی پاکستان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر مبشر میر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، سرکاری اور دفاعی اداروں کو این اے پی کا نفاذ اس کی اصل روح کےمطابق کرنا چاہیئے جو عسکریت پسندوں کے با اثر سرمایہ فراہم کاروں، سہولت کاروں اور مددگاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا، "مدارس اور نئے ناموں سے کام کرنے والی کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیئے تاکہ ضرب عضب اور ٹارگیٹد آپریشنز کی کامیابی برقرار رہ سکے۔"

انہوں نے بتایا، "عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی اور سلامتی کو بہتر بنانے کے لئے بلا تفریق ہونے والے ملک گیر آپریشنز میں شدت لانی چاہیئے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500