سلامتی

کے پی پولیس نے ٹارگٹ کلرز کے خلاف مہم تیز کر دی

جاوید خان

پشاور کے لیے سینئر سپریٹنڈنٹ پولیس عباس مروت (بائیں) یکم ستمبر کو ارباب ٹاپو متانی میں پولیس کی ایک دور دراز چوکی کا معائینہ کر رہے ہیں۔ پولیس کو ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردانہ حملوں کے لیے چوکس رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ]بہ شکریہ پشاور پولیس[

پشاور کے لیے سینئر سپریٹنڈنٹ پولیس عباس مروت (بائیں) یکم ستمبر کو ارباب ٹاپو متانی میں پولیس کی ایک دور دراز چوکی کا معائینہ کر رہے ہیں۔ پولیس کو ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردانہ حملوں کے لیے چوکس رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ]بہ شکریہ پشاور پولیس[

پشاور - خیبرپختونخواہ (کے پی) کے انسداد دہشت گردی کے شعبہ (سی ٹی ڈی) نے ٹارگٹ کلرز کے خلاف مہم تیز کر دی ہے اور ایک ایسے نیٹ ورک کو توڑ دیا ہے جو پشاور میں پولیس اہلکاروں اور مشہور افراد کے قتل میں ملوث تھا۔

سی ٹی ڈی کے سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) میاں سید احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ایک ٹارگٹ کلر، محمد فرید جو کہ کم از کم بتیس افراد کے قتل میں ملوث تھا کواکیس ستمبر کو پشاور کے مضافات میں قاضی قلعہ میں مہم کے دوران گرفتار کیا گیا"۔

احمد نے کہا کہ گرفتار کیے جانے والے نے اپنے بھائیوں میں سے کم از کم ایک کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، حال ہی میں "دولت اسلامیہ عراق و شام" (داعش) میں شمولیت اختیار کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "گرفتار ہونے والے دہشت گردو کا ایک بھائی کچھ عرصہ پہلے سیکورٹی افواج کے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہو گیا تھا جب کہ دوسرا بھائی داعش سے تعلقات کے سلسلے میں افغانستان میں قید ہے"۔

احمد نے کہا کہ فرید نے گرفتاری سے بچنے کے لیے کم از کم چار جعلی ناموں کو استعمال کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسرے عسکریت پسند اسے ان جعلی ناموں، راجہ، ثابت، عبداللہ اور سبیتے سے جانتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ "فرید نے 2008 میں افغانستان میں جبہ توبہ میں تربیت حاصل کی تھی اور وہ اس وقت سے پولیس اور دیگر افواج کے خلاف سرگرم تھا"۔

احمد نے کہا کہ تفتیش سے آشکار ہوا ہے کہ اس کا گروہ ان سالوں کے دوران کم از کم پندرہ پولیس افسران کی ہلاکت میں ملوث تھا۔

سی ٹی ڈی نے اکیس ستمبر کو ایک بیان میں کہا کہ "یہ گروہ گزشتہ کچھ مہینوں میں پشاور میں پانچ خواتین کے قتل میں ملوث تھا۔ ان کی لاشوں کو دریا میں پھنک دیا گیا تھا"۔

اس میں کہا گیا کہ قاتلوں کو شبہ تھا کہ یہ خواتین مختلف جرائم میں ملوث تھیں۔

سی ٹی ڈی کے مطابق، فرید کے گروہ پر شہریوں سے رقم اینٹھنے اور فقیرآباد، پہریپورہ اور خزانہ پولیس اسٹیشنوں کی حدود کے اندر حالیہ مہینوں میں بم نصب کرنے کا الزام بھی ہے۔

سی ٹی ڈی نے کہا کہ "اس نیٹ ورک کے دوسرے ارکان کو گرفتار کرنے کے لیے آپریشن کیے جا رہے ہیں"۔

ٹارگٹ کلرز کے خلاف آپریشنز میں توسیع

حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی افواج نے حال ہی میں قاضی قلعہ اور پشاور کے دوسرے حصوں میں دہشت گردوں کے خلاف بہت سے اقدامات کیے ہیں۔

ستائیس ستمبر کو قاضی قلعہ میں پولیس اور مبینہ دہشت گردوں کے درمیان لڑائی کے نتیجہ میں ایک ملزم گرفتار ہوا جب کہ دیگر دو ملزمان فرار ہو گئے۔ پولیس نے تقریبا چار کلوگرام وزنی گھریلو ساختہ بم کو قبضے میں لیا۔

پولیس اور سی ٹی ڈی کے افسران نے تیئس ستمبر کو گڑھی عطا کے مضافات میں ایک اور گروہ کو توڑ دیا اور فائرنگ کے تبادلے میں ایک ٹارگٹ کلر کمانڈر ہلاک ہو گیا۔

پولیس اور سی ٹی ڈی کی بھاری نفری کو پشاور بھر سے اس ٹارگٹ کلر کو گرفتار کرنے کے لیے بھیجا گیا مگر اس نے پولیس پر فائرنگ کرنا جاری رکھا۔

کیپیٹل سٹی پولیس کے افسر محمد طاہر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس فائرنگ کے نتیجہ میں، ٹارگٹ کلر کو گھر کے اندر ہلاک کر دیا گیا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس صوبائی دارالحکومت میں امن بحال کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

ٹارگٹ کلر کمانڈر، جس کی شناخت راشد خان کے طور پر ہوئی ہے، کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ پشاور میں پولیس اور بہت سے مشہور افراد کے قتل میں ملوث اہم کمانڈر تھا۔

پولیس اور سی ٹی ڈی افسران ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں حالیہ اضافے کا جواب پوری قوت سے دے رہے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق، گزشتہ چند مہینوں میں، پولیس نے ایک فوجی کرنل، انٹیلیجنس ایجنسی کے ایک ریٹائرڈ ڈائریکٹر، شعیہ بزرگوں، پولیس افسران اور دیگر افراد کے قتل میں ملوث مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے۔

شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافے سے ٹریفک پولیس کے سارجنٹوں تک کو دیہی اور مضافاتی علاقوں میں خدمات سر انجام دیتے ہوئے، بلٹ پروف جیکٹیں پہننے اور بندوق رکھنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

کیپیٹل سٹی پولیس کے ترجمان محمد عالم نے کہا کہ "اٹھائیس اور انتیس ستمبر کو تلاشی اور حملے کے آپریشن کے دوران، ایک سو چھہ اشتہاریوں (مطلوب ملزمان) کو پشاور سے گرفتار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے پشاور بھر میں رکاوٹیں اور نگرانی کی چوکیاں قائم کی ہیں تاکہ مشکوک افراد کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔

عالم نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "دو روزہ آپرین کے دوران، 34 پستول، ایک سیمی آٹومیٹک گن اور دو رائفلوں کو ان ملزمان سے قبضے میں لیا گیا جن سے تفتیش کی جا رہی تھی"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500