سلامتی

پاکستان میں محرّم کے لیے سیکیورٹی سخت

جاوید خان

28 ستمبر کو پشاور کے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر محمّد طاہر پولیس افسران اور علمائے دین کے ساتھ محرّم کے لیے سیکیورٹی انتظامات پر بات چیت کی غرض سے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ [بشکریہ کے پی پولیس]

28 ستمبر کو پشاور کے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر محمّد طاہر پولیس افسران اور علمائے دین کے ساتھ محرّم کے لیے سیکیورٹی انتظامات پر بات چیت کی غرض سے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ [بشکریہ کے پی پولیس]

پشاور — پاکستانی حکام نے سیکیورٹی میں اضافہ کر دیا ہے کیوں کہ 3 اکتوبر، یکم محرّم اور 12 اکتوبر عاشورہ کے درمیان سینکڑوں جلوس اور مذہبی مجالس متوقع ہیں۔

اس ماہِ مقدّس میں عبادت گاہوں پر کسی بھی دہشتگردانہ حملے کی انسداد کے لیے خیبر پختونخوا (کے پی) اور دیگر صوبوں میں پولیس ہائی الرٹ پر ہے۔

پاکستانی میڈیا کے مطابق صوبے بھر میں 429 جلوس متوقع ہیں، جبکہ عاشورہ کے دوران 940 مجالس (امام بارگاہوں کے اندر مذہبی اجتماع) منعقد ہوں گی۔

30 ستمبر کو کے پی کے انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درّانی کو محرّم کے دوران سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات سے متعلق تمام ریجنل پولیس آفیسرز، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز اور دیگر سنیئر پولیس عہدیداران کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔

درّانی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”تمام عہدیداران کو محرّم کے دوران سیکیورٹی اور اس کے ساتھ ساتھ فرقہ ورانہ رواداری کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی۔“

انہوں نے کہا کہ پولیس نے کے پی میں محرّم کے جلوسوں کے راستوں پر 129 ”پریشانی پیدا کرنے والے مقامات“ کی نشاندہی کی ہے جہاں وہ غیر معمولی سیکیورٹی اقدامات کریں گے۔ انہوں نے پشاور، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان اور ہنگو کی حساس ترین اضلاع کے طور پر نشاندہی کی۔

درّانی نے کہا، ”تمام اہلکاروں کو [اپنے موبائل فونز کے ذریعے] تمام جلوسوں کی لائیو الیکٹرانک نگرانی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی۔“

انہوں نے کہا کہ پولیس کو کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے جلوسوں کے راستوں اور امام بارگاہوں کے داخلی راستوں کی بم ڈیٹیکٹرز اور سراغ رساں کتوں کے ذریعے صفائی کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔

مزید برآں، درّانی نے یہ واضح کیا کہ حکام کسی نئے یا غیر طے شدہ جلوس کی اجازت نہ دیں گے اور اس فیصلہ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کریں گے۔

فرقہ ورانہ روادری کی اہمیت

علمائے دین اور عمائدین نے سنّی اور شعیہ، ہر دو مسلمانوں کے ایک اہم دن، عاشورہ کے دوران فرقہ ورانہ رواداری کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی غرض سے حالیہ دنوں میں پشاور، لاہور، اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں اجلاس منعقد کیے۔

پشاور کے ایک عالمِ دین اور کے پی کے ایک سابق صوبائی وزیر، قاری روح اللہ مدنی نے یکم اکتوبر کو پشاور میں ایک کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے کہا، ”عاشورۂ محرّم تمام مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر اہم ہے اور سب کو اس ماہِ مقدّس کے دوران امن کو یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔“

انہوں نے تمام فرقوں کے عمائدین پر جلوسوں اور دیگر اجتماعات کے دوران امنِ عامہ برقرار رکھنے میں پولیس کی مدد کرنے کے لیے زور دیا۔

عاشورہ کے لیے سیکیورٹی انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے پشاور میں عہدیداران نے ستمبر کے گزشتہ ہفتے میں اجلاسوں کا ایک سلسلہ منعقد کیا۔

عاشورہ کے دوران سنیما اور میوزک ہال بند رہیں گے۔ مزید برآں کے پی کی ضلعی حکومت نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 144 کے تحت موٹرسائیکل کی ڈبل سواری اور اسلحہ کی نمائش پر پابندی عائد کر دی۔

کوہاٹی میں ایک کمانڈ پوسٹ وسطی مقام سے تمام سیکیورٹی انتظامات کی نگرانی کرے گی۔

پشاور کے سینیئر سپرانٹنڈنٹ پولیس آپریشنز عبّاس مجید مروت نے کہا، ”محرّم کے دوران مذہبی رواداری کو یقینی بنانے کے لیے تمام افسران کو علمائے دین اور عمائدین سے رابطے میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔“

پولیس اہلکاروں کو جلوس کے تمام راستوں پر گشت کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ سڑک کے دونوں جانب کسی بھی مشتبہ چیز کو تلاش کر سکیں۔

سیکیورٹی آپریشنز میں اضافہ

محرّم سے قبل مشتبہ افراد کو پکڑنے کے لیے پولیس نے صوبائی صدرمقام کے دیہی، نیم شہری اور شہری علاقوں میں تلاش اور چھاپے کی کاروائیوں اور سڑکوں پر ناکوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔

مضافات کے ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ پولیس فضل واحد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ” پولیس نے 2 اکتوبر کو پشاور کے مضافات میں رنگ روڈ پر ایک کاروائی کرتے ہوئے ایک کار سے 46 پستول، آٹھ نیم خودکار بندوقیں اور گولیوں کے 24,000 راؤنڈ بازیاب کر لیے جسے محرّم کے دوران پر تشدد کاروائیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔“

پولیس نے ایک گرفتاری کی اور ملزم سے تفتیش کر رہی ہے۔

واحد نے کہا، ”اس علاقہ میں بھی تلاش اور چھاپے کی کاروائیاں کی گئیں، جن کے دوران ہم نے مختلف مقدمات میں مطلوب دو مجرموں اور 13 مشتبہین کو گرفتار کیا۔“

ضلعی عہدیداران نے اس امر کو یقینی بنانے کے لیے اضافہ شدہ سیکیورٹی اقدامات کی منصوبہ بندی کی ہے کہ محرّم کسی سانحہ کے بغیر گزر جائے۔

ہنگو ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شاہ نذر کے مطابق، 9 اور 10 محرّم (11-12 اکتوبر) کو ہنگو میں بازار بند رہیں گے، اور پولیس نے آٹھ امام بارگاہوں کو حساس قرار دیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”محرم کے پر امن طور پر منائے جانے کی غرض سے 3,500 پولیس اہلکاروں سمیت فوج اور فرنٹیئر کور کی تین تین پلٹن اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کی چار پلٹن ضلع میں تعینات کی جائیں گی۔“

نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کریک ڈاؤن

سیکیورٹی اقدامات پاکستان کے دیگر حصّوں میں بھی پہنچ رہے ہیں۔

پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف نے صوبے بھر میں سخت سیکیورٹی کے احکامات دیے ہیں اور دورانِ محرٓم نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں اور نفرت آمیز مواد تقسیم کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا ہے۔

شریف نے یکم اکتوبر کو محرّم کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اجلاس کے دوران کہا ”اس ماہِ مقدّس کے دوران مساجد، امام بارگاہوں اور جلوسوں کی سیکیورٹی کو خصوصی توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت عبادت گاہوں اور جلوسوں کے راستوں پر سیکیورٹی میں غفلت کو برداشت نہیں کرے گی۔

28 ستمبر کو رینجرز کے ایک بیان میں کہا گیا کہ سندھ رینجرز اور پولیس نے بھی کراچی، صوبہ سندھ میں کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی انتظامات کو حتمی شکل دے دی ہے۔

عمائدین کی جانب سے امن کے لیے تعاون کا عہد

ایک اور حساس علاقہ، پارہ چنار، کرم ایجنسی میں فوج اور پولیٹیکل انتظامیہ نے پرامن تکمیلِ محرّم کے لیے انتظامات کے جُزُ کے طور پر عمائدین سے ملاقات کی۔

برگیڈیئر امیر محمّد خان اور کرم ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ اکرام اللہ خان نے یکم اکتوبر کو پارہ چنار میں عمائدین کے ایک جرگہ سے خطاب کیا، جہاں عمائدین نے انہیں محرّم کے دوران امن برقرار رکھنے کے لیے اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔

علاوہ ازیں، مذہبی اور فرقہ ورانہ رواداری کا مظاہرہ کرنے اور سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ضلع گلگت میں سنّی مسلمانوں کے ایک گروہ نے محرّم کے جلوسوں کے تحفّظ کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔

مزید برآں، عاشورہ کے دوران ایمرجنسی رسپانس ٹیمیں تیار رہیں گی۔

ریسکیو 1122 کے ایک ترجمان بلال احمد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”دیگر بڑے مواقع کی طرح ہماری ٹیمیں اور ایمبولینس کسی بھی ہنگامی صورتِ حال پر ردِّ عمل دینے کے لیے تیار رہیں گی۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

واہ، بہت خوب، اعلیٰ، خدا آپ پر رحمت کرے

جواب